شندور سیاحت سے دور

بام دنیا کی سیاحت اور فری سٹائل چوگان بازی سے محظوظ ہونے کے لئے غیر ملکی’ ملکی اور مقامی سیاحوں کی بڑی تعداد ہر سال اپر چترال کا رخ کرتی ہے شندور میں پولو کے روایتی کھل میں شہسوار جب ایک مخصوص دھن اور تماشائیوں کے جذباتی نعروں اور شور میں پولو بال کو مخالف ٹیم کے گول پوسٹ کی طرف اچھال کر ہٹ کرتے ہیں تو ماضی کے جنگوں اور بہادروں کے کارناموں کی یاد تازہ ہوتی ہے دور جدید میں لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو کی حقیقی تصویر شندور کے میدان میں سجتی ہے سب کچھ روایتی اور قدیم ہے صرف کھلاڑیوں کے لباس میں شاید تھوڑی بہت تبدیلی اور جدت آئی ہے پولو بادشاہوں کا کھیل ہے چترال اور گلگت کا عام آدمی بادشاہ تو کجا نوکروں کے چاکروں کے بھی ٹھاٹ باٹ کا نہیں لیکن شوق بادشاہوں والا پالتے ہیں یوں شندور کا میلہ سجتا ہے اور چوگان بازی کا پرخطر کھیل متروک نہیں ہوا سرکاری محکموں اور اضلاع کی انتظامیہ چترال سکائوٹس پولو کی سرپرستی اور کھلاڑیوں کی ملازمت میں حصہ دار ضرور ہیں مگر بنیادی بات وہ آتش شوق ہے جو صدیاں بیت جانے کے بعد بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی ہر سال شندور میں میلہ سجتا شائستگی کی ا گر کوئی مثال تلاش کرنا ہو تو شندور میلہ اجتماع اس کی عمدہ مثال ہو گی جس کا سہرا چترال اور گلگت کے عوام کو جاتا ہے جس کے باعث سیاح پوری طرح یخ بستہ فضا میں بھی گرمجوشی محسوس کرتے ہیں یہ کشش ہی غیر ملکیوں سے لیکر مقامی ا فراد تک سبھی کو شندور میں خیمہ بستی بسانے کے لئے دعوت دے رہی ہوتی ہے یہ سلسلہ تو اسی طرح چلتا رہے گا پولو اور چوگان بازی کے مشاق خاندانوں کے کھلاڑیوں کی مہارت اور ہر ایک کی دلچسپی اور رغبت میں صدی بعد بھی کمی آنی ہے یا نہیں اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مگر لواری ٹنل سے مستوج یار خوں بروغل اور شندور کے میدان تک رسائی کے لئے سیاحوں کو جس کشٹ کا سامنا ہے ان تکالیف کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ شندور کی رعنائیاں ناقابل فراموش ہوں گی یا پھر سفر کی صعوبتوں کی تلخیاں بری یاد بن کر ساتھ رہیں گی فی الوقت تو دونوں لازم و ملزوم ہیں انہی پتھروں پہ چل کے آسکو تو آئو میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں کی حقیقی تصویر کشی کے عالم میں ایک بار دیکھا ہے دوبارہ دیکھنے کی ہوس رکھنے والے بھی سوبارسوچنے پر مجبور ہوں گے چترال موسم اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا جس بری طرح شکار ہے اس سے خطے کا وجودہی آہستہ آہستہ مٹنے کا خطرہ ہے قدرتی آفات سے نمٹنے کی تو مرکزی اور صوبائی حکومت سے توقع ہی عبث ہے کم از کم چترال شندور روڈ جسے بجا طور پر سی پیک کا متبادل و محفوظ روڈ قرار دیا جا سکتا ہے اس کی حالت زار پر ماتم کناں ہوئے بغیر چارہ نہیں کسی حکومت پر تنقید مطلوب نہیںلیکن پاکستان تحریک انصاف صوبے میں نو سال تسلسل کے ساتھ اقتدار میں ہے دعوئوں سے قطع نظر حقائق یہ ہیں کہ معمول کے حال میں ہی سڑکیں خونی اور سفر مثل سفر آخرت کا ہے حالات انگڑائی لیں تو پھر ہزاروں سیاحوں کودن کا کچھ حصہ اور رات بھر ایک نالہ عبورکرنے کے انتظار میں گزار نا مجبوری بن جاتی ہے سیلابی ریلوں کے باعث یار خوںکھوژ اور دیگر علاقے شدید کٹائو اراضی و باغات کی تباہی سڑکوں کے بہہ جانے اور سڑکوں کی بندش جیسے مسائل سے دو چار دیوسیر کے خستہ پل کی جھلکیاں میڈیا سکرینز اور اخبارات میں حال ہی میں چترال میں تباہ حال بنیادی اساس کی منہ بولتی تصویر کے طور پر قارئین کرام دیکھ ہی چکے ہوں گے ۔زمین جنبد نہ جنبد گل محمد والا معاملہ ہے ۔شندور کا اصل مزہ سرکاری ہیلی کاپٹرز پر سرکاری خرچے اور ساتھ ہی ساتھ شاید سفری مراعات کی بھی وصولی کرنے والے ہی لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پوری بیورو کریسی کسی نہ کسی بہانے وہاں پائی جاتی ہے مگر کسی کو چترال کی ضلعی انتظامیہ سی ا ینڈ ڈبلیو سے سڑکیں کھلی رکھنے اور سخت موسمی حالات میں مسافروں کے جاں و مال کی حفاظت کم از کم ان کے عارضی پڑائو میں مدد دینے کی ذمہ داری کا بھی کسی نے سوال ہی نہیں کیا ہو گا ان حالات میں شندور میلہ کب تک سجتا رہے گا مقامی افرادکی ایثار و مہمان نوازی کافی نہیں کروڑوں روپے شندور میلہ پر خرچ کرنے والوں کو بھی سوچنا ہو گا کہ یہ میلہ منعقد نہ ہو سکا تو صوبے کی سیاحت کا سب سے بڑا موقع بھی باقی نہیں رہے گاپی ڈی ایم کی روایتی غفلت اور ناکامی خاص طور پر کوئی پوشیدہ امر نہیں مگر توقع نہیں کہ ان سے بھی کوئی سوال کیا جائے گا کہ بھاری فنڈ اور وسائل پاس ہونے کے باوجود ان کی کارکردگی کہیں بھی نظر کیوں نہیں آتی حکومت سیاحت کے فروغ کی دعویدار ضرور ہے لیکن عملی طور پر حکومتی اقدامات دیکھنے ہوں تو شندور میلہ دیکھنے جائیں پوری قلعی کھل جائے گی۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس