p613 210

شو آف ہینڈز سے سینیٹ انتخابات کا معاملہ

وفاقی حکومت نے پاکستان کے ایوان بالایعنی سینیٹ کے انتخابات مارچ کی بجائے فروری میں کرانے کااور خفیہ رائے شماری کی بجائے سینیٹ انتخابات اوپن ووٹ یعنی شو آف ہینڈز سے کرانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اس معاملے پر سپریم کورٹ جانے کی تجویز کی مخالفت کی بجائے انتخابی اصلاحات کیلئے اپوزیشن سے بات کی تجویز دی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات کا حکومت ایک ماہ قبل کروانے کا بھی اعلان کر چکی ہے۔ ممکن ہے حکومت کی مصلحت موجود ہ سیاسی حالات کے تناظر میں ہو قانونی اور آئینی طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں، دستور کے مطابق حکومت دس فروری سے دس مارچ کے دوران سینیٹ کے انتخابات کروا سکتی ہے البتہ سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری کی بجائے ہاتھ بلند کرکے ووٹ دینے کا معاملہ قانون سازی کا متقاضی ہے اس حوالے سے حکومت عدالت سے رجوع کرکے ماضی میں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے فیصلہ ایک ہفتے میں کرنے کی ہدایت کی طرح کوئی ممکنہ فیصلہ تو لے سکتی ہے لیکن عدالت کسی فریق یا جماعت کو کوئی رائے یا حکم نہیں دے سکتی، سیاسی جماعتوں نے ایوان کے اندر فیصلہ اپنی آزادانہ رائے کے اظہار کے ذریعے ہی کرنا ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے جاری تعلقات کے تناظر میں تو یہ ممکن نہیں لگتا کہ اس حوالے سے حکومت کو کامیابی مل سکے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے نومبر میں اس امر کا اظہار کیا تھا کہ حکومت سینیٹ کے انتخابات خفیہ نہیں بلکہ اعلانیہ اور شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے کی خواہاں ہے لیکن حکومتی حلقوں کی جانب سے اس حوالے سے حزب اختلاف سے سنجیدہ رابطہ مشاورت اور قانون سازی کیلئے مسودے کی تیاری اور حزب اختلاف کی حمایت کے حصول کی کوئی سعی نہیں کی۔ اب اچانک ایک مرتبہ پھر اس کااعلان سوائے اس کے کچھ نظر نہیں آتا کہ حکومت حزب اختلاف کے دباؤ سے توجہ ہٹانے اور حزب اختلاف کو استعفے کے مطالبے اور لانگ مارچ کیساتھ ایک اور وقتی موضوع فراہم کرے بظاہر تو ایسا کرنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن سینیٹ کے انتخابات میں ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کی روک تھام اور شفافیت کیلئے تو یہ ضروری بھی قرار دیا جاسکتا ہے مگر سیاسی طور پر چیئرمین سینیٹ کے انتخابات اور پھر ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران حزب اختلاف کی عددی اکثریت کے باوجود ناکامی کے انہی کے حصے میں آنے کا جو عجوبہ سامنے آیا اس سے بہت ساری باتیں واضح ہوئیں۔ اگر شو آف ہینڈز کا طریقہ اس وقت اختیار ہوتا تو ایوان میں حزب اختلاف کیساتھ کھڑے ہونے والوں کو درون خانہ جماعتی پالیسی کو نیلام کرنے کا موقع نہ ملتا۔ اس زخم خوردگی کے بعد حزب اختلاف کی جماعتیں کم ازکم اس موقع پر ہرگز حکومتی خیال سے متفق نہیں ہوں گی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا حکومت کے اس اقدام کے پس پردہ اپنے ارکان کی وفاداریوں پر شبہ تو نہیں، کیا کوئی ایسا امکان ہے کہ حکومت کی طرح حزب اختلاف اسی ایوان سے اپنا بدلہ چکائے جس کی روک تھام کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔سینیٹ انتخابات کا طریقہ کار انتہائی پیچیدہ ہے جس کیلئے پنجاب اسمبلی سے کسی بھی اُمیدوار کو جیتنے کیلئے 47، سندھ اسمبلی سے 21، خیبر پختونخوا سے 16 اور بلوچستان سے نو ووٹ لینا ہوتے ہیں یعنی ہر صوبائی اسمبلی کے اتنے ارکان مل کر ایک ایک سینیٹر کا انتخاب کرتے ہیں اور کسی بھی اُمیدوار کو مطلوبہ ووٹوں سے زیادہ ملنے والے ووٹ پارٹی کے اگلی ترجیحی اُمیدوار کو منتقل ہو جاتے ہیں۔اسی طریقہ کار کا فائدہ اُٹھا کر ہی اُمیدواروں کو خریدنے کی شکایات ہر الیکشن میں سامنے آتی ہیں۔سینیٹ کے انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے اعلانیہ ووٹ کا فارمولہ احسن ہے اس کیلئے حکومت کو حزب اختلاف سے مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کی نوٹنکی کا مزید مظاہرہ نہ ہو کہ جس اُمیدوار کو کامیاب ہونا چاہئے اس کے مقابلے میں غیرمتوقع طور پر کوئی دوسرا کامیاب ہو۔ گوکہ حکومت اور حزب اختلاف اپنے اپنے محاذ پر اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ کسی فریق کی واپسی مشکل نظر آتی ہے۔ پی ڈی ایم کہ مطالبات پر تیار نہیں اور نہ ہی وہ حکومت سے مذاکرات کی خواہاں ہے ۔ اگر سینیٹ انتخابات بارے ہی حزب اختلاف سے سلسلہ جنبانی کی جائے تو باہم ملاقات اور درون خانہ کوششوں سے ممکن ہے سیاسی بحران کا بھی کوئی حل نکل آئے۔

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان