arif bahar 39

شوکت ترین مردِحریت یا ”سلطان راہی”؟

وزیر خزانہ شوکت ترین آئی ایم ایف کے خلاف” مردِحریت” بن کر سامنے آئے ہیں۔ ان کے اس نعر ہ مستانہ کا راز کیا ہے ؟ اور و ہ حقیقی مردِحریت ہیں یا سلطان راہی کی طرح ان کی باتیں محض عوام کو وقت طور پر خوش کرنے کا باعث بنتی ہیںیہ حقیقت معلوم ہونا ابھی باقی ہے۔ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دئیے ہیں۔ جیسے آئی ایم ایف کہہ رہا ہے ویسے نہیں کرسکتے۔ شوکت ترین کا یہ پیرایہ اظہار ملک کی اقتصادیات کو کنٹرول کرنے والے عالمی ادارے کے خلاف مکمل چارج شیٹ بھی ہے اور ملک کی سنگین معاشی صورت حال کاعکاس بھی ۔یہ تصویر کا وہ پہلو ہے جو معاشی ماہرین کی وہ ٹیم اس وقت دکھا رہی تھی جب حکومت آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کے معاملے میں تذبذب کا شکار تھی ۔آگے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کی گہری کھائی تھی اور پیچھے معاشی بدحالی اور دیوالیہ پن کا کنواںتھا۔اسد عمر اس تذبذب میں رہے اور ملکی معیشت کے پائوں اکھڑتے چلے گئے ۔ اسد عمر کے تذبذب کی ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اسلام آباد سے ووٹ لے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو کر وزیر خزانہ بنے تھے اور آئی ایم ایف کی شرائط کے مقابلے میں انہیں اسلام آباد کی جھگیوں کے مکینوں کے چہرے دکھائی دے رہے ہوتے ۔انہیں یہ احساس تھا کہ کل کسی لمحے حلقے میں جانا پڑے گا اور یہ احساس ان کے تذبذب کی وجہ رہی ہوگی۔ اس تذبذب میں ہی ان کی وزارت چلی گئی اورآئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے لئے حفیظ شیخ منظر پر اُبھرے ان سے جس قسم کے فیصلے کی توقع تھی وہی ہوا ۔اس کے بعد آئی ایم ایف نے اپنی شرائط پر قرض کی پہلی قسط دی اور عوام کی چیخیں نکلنا شروع ہو گئیں ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت تیزی سے غیر مقبول ہو گئی اور یہ وہ سیاسی قیمت تھی جس کا اشارتاََ تذکر ہ شوکت ترین نے بھی کیا ہے ۔آج عمران خان کی حکومت آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کی قیمت چکا رہی ہے ۔یہ قیمت معاہدہ کرنے والے حفیظ شیخ کو بھی چکانا پڑی کہ و ہ سینیٹ انتخابات میں ہار کر حکومت سے قانونی اور جمہوری طریقے سے ہی باہر ہوگئے ۔حکومت کے لئے اس شکست کے بعد حفیظ شیخ کو گھر بھیجنا آسان ہو گیا ۔جس کے بعد شوکت ترین ایک آخری کارڈ اور چارہ کار کے طور پر سامنے لائے گئے ہیں۔ شوکت ترین ماضی میں بھی وزیر خزانہ کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں ۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کرکے ایک پیکیج منظور کر ایا تھا ۔اب شوکت ترین کا کہنا ہے کہ اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دینے کی وجہ سے عالمی حالات پاکستان کے مواقف تھے اس ساز گار ماحول کی وجہ سے آئی ایم ایف نے آسان شرائط پر قرض دیا ۔دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہہ رہے ہیں آج پاکستان کو اس کے سیاسی فیصلوں کی سزا آئی ایم ایف کے ذریعے دی جا رہی ہے ۔صرف آئی ایم ایف ہی نہیں بلکہ مسلمہ امریکی اثر رسوخ کے حامل تمام عالمی اداروں کے ذریعے پاکستان کی کلائی مروڑ کر اسے کچھ فیصلوں کی سزاد ی جا رہی ہے ۔ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنا اور مسلسل نگرانی کرنا بھی کچھ فیصلوں کی قیمت ہے ۔ پاکستان کے خلاف مغربی قانون ساز اداروں میں منظور کی جانے والی قراردادیں بھی سیاسی بدنیتی کی عکاس ہیں۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ امریکہ پاکستان کو چین کے ساتھ کھڑا ہونے کی سزاد ے رہا ہے۔ افغانستان میں اپنی ناکامیوں پر پاکستان سے خفا ہے ۔امریکہ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ پاکستان اب اس کی عالمی اور علاقائی سکیم میں پوری طرح شریک ہونے کو تیارنہیں ۔جب تک امریکہ کو پاکستان سے اس راستے کے واپس لوٹنے کی امید تھی تو آئی ایم ایف کا رویہ بھی کسی حد تک ہمدردانہ اور مشفقانہ تھا اور جب امریکہ کی امیدیں ختم ہوگئیں تو آئی ایم ایف ایک اقتصادی غارت بن کر پاکستانی عوام کا معاشی بھُرکس نکالنے لگ گیا ۔جس حکومت سے امریکہ کو کسی بہتری کی امید ہوتی تو اس کے لئے بین الاقوامی اداروں کے راستے کھل جاتے ہیں۔ ہر جانب سے آسانیاں پیدانے لگتی ہیں ۔رکاٹیں دور ہونے لگتی ہیں۔یہ خود موجودہ عالمی نظام اور اداروں کی کریڈیبلٹی کا سوال بھی ہے ۔گویا کہ یہ نظام کسی انصاف کے اصول پر کھڑا نہیں بلکہ سیاسی ضرورتوں کا اسیر ہے ۔اس کے تمام فیصلے ایک یا چند ملکوں کے ایک کلب کے سیاسی اور دفاعی ضرورتوں کے تابع ہیں۔یہ ممالک جس کی چاہیں کلائی مروڑ کر اسے معاشی ،عالمی سماجی اور دفاعی میدان میں ”نکو ” بنا کر چھوڑ دیں اور جس پر مہربان ہوجائیں اس پر وسائل کی بارش ہوجائے ۔افغان جہاد اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہی پاکستان مغرب کا محبوب نظر تھا تو دنیا کے سب ادارے پاکستان پر مہربان تھے اور اب جبکہ حالات بدل گئے ہیں اور مغرب کے زیر اثر عالمی اداروں کا رویہ بھی بدل گیا ہے ۔شوکت ترین کے نعر ہ مستانہ سے یہی کچھ سمجھ میں آتا ہے۔اس سب کے باوجود و ہ آئی ایم ایف کے متبادل ذرائع کس طرح پیدا کر یں گے ؟یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں