3 308

شکر الحمد اللہ

آکسیجن ماسک تلے سے تیز تیز چلتی سانس میں یکدم ٹہرائو پیدا ہوا تھا اور امی نے آنکھیں کھول کر ایک لمحے کے ہزارویںحصے کیلئے میری جانب دیکھا، میں ان کے سیدھے ہاتھ کی جانب کھڑی تھی پھر ان کی نظر میرے اندر سے گزر گئی اور کہیں اور دیکھنے لگی۔ انہوں نے پھر اوپر کی جانب نگاہ کی پھر اپنے داہنے جانب دیکھا۔ میرادل مٹھی میں جکڑا گیا۔ میں ان کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی اور کلمہ پڑھ رہی تھی۔ عمر جلدی سورة یٰسین پڑھو۔ راشد کو فون کرو وہ بھی پڑھے۔ فاطمہ اونچا اونچا کلمہ پڑھنے لگی، امی نے دوبار اسی ماسک کے نیچے سے کلمہ پڑھا اور ان کی آنکھیں شیشے کی ہوگئیں اور ہم سب تہی داماں ہوگئے۔ کبھی ماں بھی یوں کرتی ہے، بچوں کو چھوڑ کر چلی جائے لیکن وہ چلی گئیں اور میرے منہ سے بے اختیار نکلا، شکر الحمد اللہ۔ میری ماں اس بدن میں بہت تکلیف سہہ رہی تھی، آزاد ہو گئی۔ شکر الحمداللہ! میں یقین ہی نہیں کر سکتی، میری ماں میرے ہاتھوں سے پھسل گئی اور میں نے کہا شکر الحمد اللہ۔ میرا دل کیوں نہ پھٹ گیا۔ میری آنکھوں سے خون کیوں نہ بہہ نکلا، میں گونگی کیوں نہ ہوگئی، اس ایک لمحے میں مجھ پر میرے بہن بھائی پر قیامت گزر گئی اور میں نے کہا شکر الحمداللہ! ہائے میں کیا کہتی، ہائے میری ماں، ہائے میری ماں ہم کیسے خالی ہوگئے اور میں نے کہا شکر الحمد اللہ! اور میری ماں جو مٹی کے اس وجود کے لبادے میں قید تھی آزاد ہوگئی۔عائشہ، فاطمہ تڑپ رہی تھیں، عمر بلبلا رہا تھا، میں خاموش تھی، تنصیر نے میری جانب کسی خالی نظروں سے دیکھا اور کہا بس باجی اور مجھ سے لپٹ گیا۔ وہ رو رہا تھا، وہ داماد نہیں تھا، امی کا بیٹا تھا۔ چھ سال سے امی کی تکلیف کا ساتھی۔ امی کا ہمدرد، امی کا ڈاکٹر چند لمحے پہلے جب ڈاکٹر محمد نے کمرے میںکھڑے ہو کر پوچھا کہ آپ میں سے فیصلہ کون کرے گا تو میری بہنوں اور بھائی نے ایک لمحے میں میری طرف اشارہ کر دیا اور میں اس بوجھ تلے دب گئی اور میری ماں جب وہ چل نہیں سکتی تھیں، ضعف انہیں نماز پڑھنے سے روک نہ سکا تھا، وہ بچوں کی طرح میری طرف بازو اُٹھاتیں تو میرا دل مامتا سے بھر جاتا۔ میں انہیں چومتی چومتی ہی جاتی، میری پیاری ماں وہ مجھے اپنے بچے سے زیادہ عزیز تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ پانی ہمیشہ ڈھلان کی طرف جاتا ہے اور میں کہتی اگر یہ بات ہے تو میں آپ کو گود لے لیتی ہوں۔ آپ میرا بچہ میں آپ کو سنبھال لوں گی، وہ صحت میں تھیں تب بھی وہ اتنی ہی معصوم اتنی خوبصورت اتنی پیاری تھیں۔ میرا دل چاہتا وہ میرے دل میں سما جائیں اور اب وہ میرے دل میں سما گئیں ہیں، بس میرے دل میں۔ اب وہ باہر دکھائی نہیں دیتیں لیکن میں کیا کروں میں اپنی ماں کو کیسے چوموں کیسے کہوں، امی آپ فکر نہ کریں اور کون کہے گا کہ کام ہو نہ ہو مریم مجھے انکار نہیں کرے گی۔ امی میں کس سے کہوں کہ امی آپ تو جانتی ہیں ناں، میرے پاس لفظ نہیں ہیں۔ میں کس کی گود میں سر رکھوں کہ میرے سے دنیا کی حقیقت برداشت نہیں ہو رہی، کس کو بتاؤں کہ امی جب آپ نے آخری سانس لی میں نے کہا شکر الحمداللہ! کس کے سامنے روؤں کہ میری ماں نہیں رہی، کس کو اپنا دُکھ سُناؤں، کس کو غصے میں آکر فون کروں کہ میرے ساتھ ناانصافی ہوگئی ہے، میری ماں ہی نہیں ہے، میں بلک رہی ہوں کہ میرے ہاتھوں سے میری ماں کے ٹھنڈے چہرے کا لمس نہیں جاتا۔ میری سانس سے اپنی ماں کی خوشبو نہیں جاتی۔ اب مجھے اس پوری دنیا میں کسی کی محبت کی اُمید نہیں، کسی بات پر کسی کے اثبات میں سر ہلانے کی ضرورت نہیں، میں بڑی ہوگئی، میں ختم ہوگئی، اب میری ماں نہیں ہے اور میں نے کہا شکر الحمد اللہ۔ کیونکہ میری ماں تکلیف میں تھی اور میں اس کی تکلیف نہیں گزار سکتی تھی۔ میں اپنے حصے کے پانی سے ایک قطرہ بھی اس کے حصے میں نہ ڈال سکتی تھی۔ اپنے حصے کے اناج میں سے ایک دانہ نہ اس کے منہ میں ڈال سکتی تھی۔ میرے مالک کی مرضی تھی اور وہ بھی یہی کہتی تھی یہ میرے مالک کی مرضی ہے۔ اس نے اپنے مالک کی مرضی پر سر تسلیم خم کیا۔ میری ماں کبھی شکوہ نہ کرتی تھی، ہمیشہ کہتی تھی مالک تیرا شکر ہے۔ وہ چلی گئی تو میں نے کہا، شکر الحمد اللہ اور کیا کہتی یہ میرے مالک کی مرضی تھی، میری ماں نے مجھے سکھایا تھا اپنے رب کی رضا میں راضی رہو اور اب میں کسی سے لاڈ میں ٹھنک کر یہ نہیں کہہ سکتی یہ کیا بات ہوئی۔ اب میں بس یہی کہوں گی شکر الحمداللہ۔ یہ میری ماں نے مجھے سکھایا۔ بس جانے سے پہلے میری ماں اپنے بچے میری گود میں ڈال گئی۔ تاکید کر گئی، بہن بھائی کا خیال رکھنا اور میں بندھ گئیں۔ شکر الحمد اللہ۔ میرے مالک نے مجھے اس ذمہ داری کے قابل سمجھا ہوگا، اگر میں قابل نہیں تو میرا مالک مجھے حوصلہ دے گا، شکر الحمد اللہ۔ ہم تڑپ رہے ہیں لیکن ہماری ماں محفوظ ہوگئی ہے۔ دنیا کی تکلیفوں سے دور ہوگئی ہے۔ شکر الحمد اللہ، وہ اپنے میاں کے قدموں میں دفن ہوگئیں، شکر الحمد اللہ۔ اور ایک خوبصورت سی سادہ لوح عورت نے مجھے کہا تم لوگوں نے اپنا فرض پورا کیا۔ شکر الحمد اللہ، میرے لئے اب کوئی ہاتھ دعا کیلئے نہ اُٹھیں گے لیکن فاطمہ کہتی ہے ہم ایسی نیک اولاد بنیں گے کہ ہمارا مالک ہمارے ماں باپ سے خوش ہو جائے شکر الحمد اللہ۔ عائشہ کہتی ہے باجی تم سب کیلئے دعا کرو شکر الحمد اللہ اور عمر حسب معمول اپنی آنکھوں سے ہی سب کچھ کہہ رہا ہے اور مجھے سمجھ آنے لگا ہے، شکر الحمد اللہ۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات