شکریہ

خانہ کعبہ میں نماز کے بعد بیٹھے میں اور عائشہ اگلی نماز کا انتظار کر رہے تھے اپنے اپنے دل میںاپنے رب کے حضور اپنی عرضیاں پیش کر رہے تھے ‘شاداں تھے کہ ہمیں اپنے گھر کی حاضر ی کی اجازت رب کائنات نے عطا کی تھی دل بار بار بھر آتا تھا اپنی کوتاہیاں ‘ اپنی غلطیاں یاد آرہی تھیں ‘ ایسے میں میرے ساتھ بیٹھی ایک خاتون نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا ‘ آپ کہاں سے ہیں ‘ ان کا لہجہ اس بات کا غماز تھا کہ وہ پاکستان سے نہیں ‘ میں نے بتایا کہ میں پاکستان سے ہوں ‘ ان کی آنکھیں ایک لمحے کوحیرت سے پھیلیں اور پھرانہوں نے کہا کہ پاکستان میں تو بہت غربت نہیں؟ ان کے لہجے اور چہرے کی معصومیت نے مجھے مسکرانے پر مجبور کر دیا۔ میں نے ان سے الٹا سوال داغا ‘ غربت دنیا میں کہاں نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں صرف غربت ہی ہے ‘ وہ بھارتی حید رآباد سے تھیں سو اسی مخصوص لہجے میں بات کر رہی تھیں کہنے لگیں ہمیں تو بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں بہت غربت ہے ‘ کھانے کو بھی کچھ میسر نہیں ‘ لوگوں کوصاف پینے کا پانی نہیں ملتا عورتوں پر بے انتہا بے جا پابندیاں ہیں ‘ سیاست دان لوگوںکولوٹ لوٹ کھاتے ہیں ۔ بجلی کے بل اتنے آتے ہیں کہ اس کے بعد مہینہ گزارنے کو قرض اٹھانا پڑتا ہے ۔حالات اتنے برے ہیں کہ اب لوگ پچھاتے ہیں کہ بھارت سے الگ کیوں ہوئے ۔ میں ان کی باتیں سن کر مسکراتی رہی۔ وہ انتہائی معصومیت سے اپنے سارے خوف میرے ساتھ بانٹ رہی تھیں جب وہ اپنی ساری پریشانی میرے ساتھ بانٹ چکیں تو میں نے ان سے کہا کہ پاکستان سے ہی تو ہوں ‘ آپ کو میں کیسی لگ رہی ہوں کیا واقعی آپ کو لگتا ہے کہ ہمیں کھانے پینے کو کچھ نہیں ملتا ‘ اور اگراس قدرپابندیاں ہیں تو میں اور میری بہن اکیلے عمرہ کی ادائیگی کے لئے کیسے آگئے ۔ حالات ایسے نہیں جیسے آپ کو بتائے جاتے ہیں اور ذرا سوچئے کہ اگر آپ کو ایسے نہ بتایا جائے تو آپ کے دل کو مطمئن کیسے کریں کہ آپ کے حالات بہتر ہیں اور آپ کا فیصلہ درست تھا پھر یہ بھی سوچئے کہ جس بھارت میں آپ رہی ہیں وہاں ایک ہندو فاشٹ کی حکومت ہے جسے گجرات کے مقامی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے جو مسلمان کا ناحق خون بہانے کے لئے مشہور ہے ۔ جس کی پارٹی اپنے مسلم دشمن رویوں کے باعث جانی جاتی ہے یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے گجرات کے مسلم کش فسادات میں ہزاروں بے گناہوں کوجان سے مار دیا تھا ‘ یہ وہی لوگ ہیں جو راہ جاتے لوگوں کو روک کر یہ کہہ کر ڈنڈے مار مار کر مار دیا کرتے تھے کہ تم گائے کا گوشت لے کر جا رہے ہو ‘ انٹر نیٹ پرآج بھی ایسی کئی ویڈیوز موجود ہیں جہاں ایک نہتا آدمی ایسے درندوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ انہوں نے ڈنڈے مار مار کر اسے جان سے مار دیا اور کوئی بے حس اس کی ویڈیو بناتا رہا وہ حیدر آباد سے تھیں اس لئے کہنے لگیں کہ وہ سب گجرات میں ہوتا ہے ہم تو حیدر آباد میں رہتے ہیں ‘ وہاں تو ہم سب مل جل کر خوشی خوشی رہتے ہیں ہندو اور مسلمانوں میں بڑا بھائی چارہ ہے ‘ میں نے کہا آپ درست کہتی ہیں لیکن باہر سے دیکھنے والا حیدر آباد کی کہانیاں نہیں سنتا ۔ گجرات کے قصے میڈیا پر دکھائے جاتے ہیں ‘ بابری مسجد کی شہادت نیوز چینل کی زینت بنتی ہے اور پھر اس کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے آغاز کی بات خبروں کی زینت بنتی ہے ہم جس بھارت کو جانتے ہیں وہاں مسلمانوں کی عزت ‘ جان مال کسی طور پرمحفوظ نہیں ‘ وہاں کسی مسلمان کو اپنی عبادت گاہ کے تحفظ کا یقین نہیں ‘ وہاں کروڑوں لوگ غربت کی لکیر کے نیچے اپنی زندگیاں گزارتے ہیںانہیں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ‘ اور میں خود ایک سرکاری کورس پر دہلی اور گجرات گئی تھی ہم گجرات میں آزادی سے باہر گھوم نہیں سکتے تھے کیونکہ جان کا خطرہ تھا ‘اور دہلی میں مسلمانوں کاایک ہی ریسٹورنٹ تھا شاید اس کا نام کریم ریسٹورنٹ تھا اس کے علاوہ کبھی مسلمانوںکے چہرے پر بے فکری او رچمک میں نے ان دنوں محسوس نہیں کی ۔ مسلمانوںسے جب بھی کہیں بھی ملاقات ہوئی وہ کچھ گھٹے گھٹے سے لگے ‘ ہوسکتا ہے یہ میری اپنی بصیرت کا تعصب ہو لیکن مجھے تو ایسے ہی لگا ‘ انہیں شاید اندازہ ہو چلاتھا کہ یہ بحث طویل ہو جائے گی یا پھر انہوں نے میرا جذبہ دیکھ کر اندازہ لگایاکہ اس بات چیت کاخاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکے گا کہنے لگیں کہ میں ہرچند سال بعد عمرہ کے لئے آتی ہوں یہاں جن پاکستانی عورتوں سے ملتی ہوں وہ ایسی ہی باتیں کہتی ہیں ‘ آپ جیسی خواتین سے میرے ملنے کا پہلا تجربہ ہے ‘ میں نے انہیں کہا آپ کبھی پاکستان تشریف لائے ہمیں میزبانی کا شرف بخشئے آپ کی اور بھی ایسی خواتین سے ملاقات کروانگی ۔ وہ مسکرانے لگیں اور پھر انہوں نے ایک کمال کی بات کی ایک ایسی بات جیسے میں نے اپنے پلے سے باندھ لیا ‘ شاید یہ زندگی کے رہنمااصولوں جتنی اہم ہے ‘ کہنے لگیں ‘ انسان بس گلہ کرتا رہتا ہے کبھی دوسروں سے کبھی کسی کے رویوں ‘ کبھی حالات کا ‘ میں نے جب تک دوسروں سے بات کی ‘ میری مشکل کبھی آسان نہیں ہوئی ‘ میں جب تک گلہ کرتی رہی میں اپنے آپ میں کھلتی رہی ‘ میں نے اپنے میکے میں اپنی ماں سے کبھی اپنے شوہر کے بارے میں بات کی تو وہ بھی الٹا میرے خلاف استعمال ہو گئی ۔ جس نے آہستہ آہستہ سیکھا کہ بات صرف اپنے رب سے کرنی چاہئے ‘ مدد صرف اپنے رب سے مانگنی چاہئے ‘ پریشانی صرف اپنے مالک کو وہی بتائی جا سکتی ہے سو میں نے ایسا ہی کرنا شروع کیا ۔ اب مجھے کوئی گلہ محسوس نہیں ہوتا ‘ پریشانی بھی کم محسوس ہوتی ہے۔ اب میں مطمئن رہتی ہوں’ میرے مالک نے میرا ہاتھ تھام لیا ہے ‘ اب سب ٹھیک ہو گیا ہے مجھے لگتا ہے کہ میں نے جو وقت دوسرے لوگوں کی آس میں گزارا ‘ بہت غلط کیا ‘ اپنے ساتھ زیادتی کی ‘ لیکن اب میں سمجھ چکی ہوں ‘ اچھا اب میں چلتی ہوں آپ سے مل کر بہت اچھا لگا ‘ اس خوبصورت معصوم عورت نے ہاتھ ملایا اور چلی گئیں لیکن جاتے جاتے اتنی خوبصورت بات کا تحفہ دے گئیں ‘ میری کوشش ہے کہ اسے زندگی بھر کے لئے اپنے رویئے میں شامل کر لوں ‘ میں ان کا صحیح طور شکریہ ادا نہ کر سکی اور شاید یہ میرے مالک کا بھی مجھے تحفہ تھا ‘ میں اس کے گھر جو بیٹھی تھی ‘ شکر ہے میرے مالک۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت دا گز دا میدان