شہداء اے پی ایس کے والدین

شہداء اے پی ایس کے والدین کا حوصلہ پہاڑ سے بھی بلند

ویب ڈیسک: سانحہ اے پی ایس کو 9 سال بیت گئے، اس المناک سانحہ میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کا حوصلہ پہاڑ سے بھی بلند ہے.
دہشتگردوں نے جس سفاکی اور بے حسی کے ساتھ بچوں کو شہید کیا قوم اس کو ابھی تک بھولی نہیں۔
محمد علی شہید کی والدہ کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا نہایت ہی زندہ دل اور یاروں کا یار تھا۔ سکول میں اُسے سب گولڈن بوائے کہہ کر پکارتے تھے۔
میرے بیٹے کی خواہش تھی کہ وہ ایس ایس جی کمانڈو بنے۔ وہ بچپن سے ماما بوائے تھا۔ انہوں نے کہا کہ علی میرے بہت قریب تھا۔ آج بھی جب مجھ سے کوئی بچوں کے بارے میں پوچھتا ہے تو میں کہتی ہوں میرا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں کیونکہ شہید تو زندہ ہوتا ہے۔
محمد علی شہید کی والدہ کا مزید کہنا تھا کہ علی مجھے کہتا تھا کہ ماما میں آپ کو وہ خوشی دونگا کہ آپ یاد رکھیں گی۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ شہادت کی بات کر رہا تھا۔
اے پی ایس سانحہ میں شہید ہونے والے شایان ناصر کے والد کا کہنا تھا کہ شایان ناصر شہید سائنسدان بننا چاہتا تھا۔ وہ ہمیشہ فزکس میں اول آتا تھا۔
شہید شایان ناصر کرکٹ کھیلنے کا شوقین تھا۔ سب سے چھوٹا تھا تو سب گھر والوں کی آنکھوں کا تارہ تھا۔
شایان ناصر شہید کے والد نے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ پاک فوج کے خلاف کوئی بھی پراپیگینڈا نہ کرے کیونکہ مشہور قول ہے“ کہ ملک میں اپنی نہیں تو کسی اور کی فوج ہوگی۔ ہمیں پاک فوج پر فخر ہے۔
اے پی ایس سانحہ میں شہید ہونے والے ننگیال شہید اور شموئیل طارق شہید کی بہن کا کہنا تھا کہ بھائیوں کے جانے کے بعد دنیا ادھوری رہ گی ہے۔
ان دونوں کے اے پی ایس میں داخلے کا مقصد تھا کہ پاک فوج کو جوائن کرے۔ خود بھی وہ دونوں پاک فوج میں شمولیت کی خواہش ظاہر کرتے تھے۔
الحمد اللہ ہم فخر کرتے ہیں کہ ہمارے بھائی شہید ہیں۔
پاکستانی قوم نے کبھی بھی اپنے شہیدوں کو نہیں بھولی ہے۔

مزید پڑھیں:  مغربی ہواؤں کا نیا سلسلہ داخل، ملک بھر میں آج سے موسلادھار بارشوں کا امکان