شیعہ کمیونٹی ہی ٹارگٹ کیوں ؟

پشاور قصہ خوانی بازار کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کیلئے آنے والے 57 افراد اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پہنچ گئے، جب ان کی جان روح سے پرواز کر رہی تھی تو خانہ خدا میں موجود کوئی نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے وضو کر رہا تھا، کسی کی زبان اللہ کے ذکر سے تر تھی تو کوئی کلام پاک میں مصروف تھا۔ جمعہ کے عظیم دن یہ 57افراد قافلہ حسینی سے جا ملے مگر ایک ہی مکتب فکر کے لوگوں کو ہر کچھ عرصہ کے بعد ٹارگٹ کیا جانا غور طلب مسئلہ ہے۔ پشاور میں شیعہ کمیونٹی کی چار بری مساجد میں سے تین پر حملے کئے جا چکے ہیں۔کبھی پشاور، کبھی ہزارہ برادری کو اور کبھی ملک کے دوسرے حصوں میں لیکن ریاست انہیں تحفظ فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کس قدر آسانی سے کہہ دیا کہ چونکہ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کرکٹ میچ ہو رہا ہے، آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم 24 سال بعد پاکستان کے دورہ پر آئی ہے اس لئے بھارت اسے سبوتاژ کرنے کیلئے مذموم کارروائیاں کرا رہا ہے، تاکہ پاکستان پر عالمی کرکٹ کے دروازے بند رہیں، اگر شیخ رشید احمد کی بات کو تسلیم کر لیا جائے جس کے قوی امکانات بھی موجود ہیں ، تب بھی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو شرپسندوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑے، شہریوں کی حفاظت ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہئے، وفاقی وزیر داخلہ کا عہدے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ قوم کو حقائق سے آگاہ کریں۔
ہر ناخوشگوار واقعے کے بعد کتنی ڈھٹائی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ حملہ آور کا سراغ مل گیا ہے، یہ سراغ حملے سے پہلے کیوں نہیں ملتا ہے، حملے کے بعد سراغ ملنے کو انٹیلی جنس ناکامی کیا جاتا ہے۔ پشاور جیسے گنجان آباد شہر اور قصہ خوانی جیسے تنگ گلیوں والے بازار میں حملہ آور کو روکنا آسان نہیں ہوتا ہے بلکہ اس طرح کے کسی بھی بازار میں تلاشی لینا اور حملہ آور پر نظر رکھنا نہایت مشکل کام ہے مگر حملہ آور جس جگہ سے چلا، جس جگہ بیٹھ کر اس نے منصوبہ بندی کی، بارودی مواد اسے کس نے مہیا کیا، کون اسے حملہ کی جگہ پر لے کر آیا، اس نے کون سا راستہ اختیار کیا اور کون اسے فون پر گائیڈ کرتا رہا؟ یہ ساری باتیں انٹیلی جنس سے تعلق رکھتی ہیں اسے ٹارگٹ تک پہنچنے سے پہلے پکڑا جانا چاہئے تھا مگر افسوس ایک شخص اپنے منصوبے کے مطابق چلتا ہے اور بغیر کسی رکارٹ کے اپنے ٹارگٹ تک پہنچ جاتا ہے اور ہمارے سکیورٹی اداروںکو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی، اس طرح کے سکیورٹی بندوبست کو تسلی بخش کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔
سکیورٹی بندوبست کیلئے ریاست کو کیا کرنا چاہئے اس مقصد کیلئے ادارے اور اعلیٰ افسران موجود ہیں، وہ شہریوںکو تحفظ فراہم کرنے کی بھاری تنخواہ وصول کرتے ہیں، ہم تو صرف اس بات کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک ہی مکتب فکر کے لوگوں کو آخر بار بار کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ریاستی سطح پر خاطر خواہ کام نہیں ہوا ہے۔
دو نکات بہت اہم ہیں ایک یہ کہ شیعہ کمیونٹی کے قتل کے پس پردہ بھارت ہے اور وہ پاکستان میں شیعہ سنی فسادات چاہتا ہے تو اس کی وجوہات کا تعین اور قابل عمل حل تلاش کرنا چاہئے۔ دوسرا یہ کہ اگر بھارت کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے پاکستان سے افرادی قوت دستیاب ہو رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کو اندرونی سطح پر چیلنجز کا سامنا ہے جس کا مقابلہ قدرے مشکل ہوتا ہے۔ ہر دو وجہ میں ریاست پر ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، وزراء کی طرف سے روایتی مذمت مسئلے کا حل نہیں ہے، بلکہ الٹا اس کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ ہر کچھ عرصے کے بعد ہمیں ناخوشگوار واقعے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شیعہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اس کے پیچھے بہت بڑی سازش ہے تاکہ شیعہ سنی کو آپس میں لڑا کر ملک میں انتشار پھیلا دیا جائے، اس لئے یہ مسئلہ روایتی انداز میں حل ہونے والا نہیں ہے اس مقصد کیلئے بڑی مہارت اور حکمت عملی کی ضرورت ہے جب دشمن پیٹھ کے پیچھے سے بزدلوں کی طرح وار کرے تو اس طرح کے دشمن کا جواب بہادری کی بجائے بصیرت سے دیا جا تا ہے کیونکہ نظر نہ آنے والے دشمن کا مقابلہ روایتی انداز میں نہیں جا سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ نادیدہ دشمن کے خلاف لڑنے کیلئے ہر شہری ریاست کا مددگار ہوتا ہے، کیونکہ ریاست ہر جگہ پر فورس تعینات نہیں کر سکتی ہے لیکن کیا ریاست کی طرف سے ایسی جنگ کیلئے ہر شہری کو تربیت دی گئی ہے؟ کئی ممالک میں ایسا بندوبست موجود ہے کہ ہر شہری کیلئے فوجی تربیت لازم قرار دی گئی ہے، عوام لڑتے نہیں ہیں مگر ضرورت پڑنے پر وہ جاسوسی کے ذریعے ریاست کے معاون و مدد گار ثابت ہوتے ہیں ہمیں بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ حملہ آور ٹارگٹ تک پہنچنے سے پہلے ہی پکڑا جائے۔ سماجی ماہرین نے دہشتگردی اور انتہاپسندی کو دو الگ الگ کٹیگری میں شمار کیا ہے، اہل دانش کا خیال ہے کہ پاکستان سے دہشتگردی ختم ہو چکی ہے اور اس کا کریڈٹ افواج پاکستان کو جاتا ہے تاہم انتہاپسندی کا چیلنج اپنی جگہ پر برقرار ہے، جس کے خاتمے کیلئے نہایت باریک بینی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، سکیورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ ہر مسلک کے علماء اور سماجی ماہرین کی خدمات سے انتہا پسندی کو ختم کیا جا سکتا ہے ریاست کو اس طرف توجہ دینی ہو گی۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''