3 204

صاحب بہادر کے فیصلے

حکومتی فیصلوں کی بنیاد اکثر ان سمریوں پر ہوتی ہے جو دفاتر میں تیار ہوتے ہیں اور جن کی بنیاد کلرک ڈالتے ہیں۔ اس کی بنیاد کی سوچ کا عمل کلرک کے دماغ سے شروع ہوا ہو یہ ضروری نہیں، اس کا آغاز صاحب بہادر کے دماغ سے بھی ہو سکتا ہے۔ صاحب بہادر سے مراد کوئی اعلیٰ افسر بھی ہے، یا ادارے کا سربراہ بھی، کئی بار صاحب بہادر کا مطلب وزیرصاحب بھی ہوسکتے ہیں۔ وزیر صاحب بھی ضروری نہیں کہ پاکستان کے حوالے سے سوچ رہے ہوں، کئی بار ان کے کان میں بات پھونک دی جاتی ہے پھر کبھی وہ جانتے بوجھتے اور کبھی انجانے میں یہ باتیں پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں تاکہ پورے ملک کا نہ سہی کچھ کا بھلا تو ہوجائے اور کئی بار بات اتنی بھی نہیں ہوتی، کان میں پھونکنے والے اخباروں کی سرخیوں کا لالچ دے کر کام کروا جاتے ہیں۔ دفتروں کے بابو یا پھر ننھے افسران فیصلوں کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی میں یہ عقل یا ہمت ہو کہ انہیں اندازہ ہونے لگے اس سب کا ملک کو نقصان ہو سکتا ہے یا نقصان یا فائدہ تو دور کی بات ہے یہ بات مروجہ اصول وضوابط کے برخلاف ہے اور وہ یہ بھی ہمت کر لے کہ ایسی کوئی ننھی سے بات یا ایک کمزور سا جملہ فائل کی زینت بنا دے تو کئی بار تبادلے کے خوف سے ہمیں اعلیٰ افسران اسے بلا کر جھاڑ دیتے ہیں کہ تمہیں تو نہیں لیکن مجھے اپنی نوکری عزیز ہے۔ یہ قانون بنایا ہی اسی لئے گیا ہے کہ موم کی ناک کا محاورہ بہتر طریقے سے سمجھ میں آسکے۔ کئی بار افسران بالا بھی ایماندار نکل آتے ہیں اور وہ اس منحنی، کمزور کانپتی ٹانگوں والے جملے کو اپنی حمایت کا سہارا دے کر طاقتور بنا دیتے ہیں، ایسے میں یا تو وہ خود تبدیل ہو جاتے ہیں یا فائل پر ان کے اعتراضات کو غیرضروری قرار دے دیا جاتا ہے۔ ہوتا وہی ہے جو صاحب بہادر کی مرضی ہوتی ہے اور اکثر اوقات اس کا عقل، فہم، منطق اور صراحت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا، وہ فیصلہ ہوجاتا ہے کیونکہ بس اسے ہونا ہوتا ہے۔ اس سے کسی ایک کا بھلا ہو یا مٹھی بھر لوگوں کا، اس حوالے سے نہ کوئی سوچتا ہے اور نہ ہی ان کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے۔
پاکستان میں ایک رجحان اور بھی ہے ہم آئندہ سالوں کے بارے میں قطعی فکرمند نہیں ہوتے۔ ہم کبھی نہیں سوچتے کہ آج کے اس فیصلے کا ہمارے کل پر کیا اثر ہوسکتا ہے۔ ہم نے کبھی غور نہیں کیا کہ آخر کسی بھی سرکاری یا حکومتی فیصلے کا کبھی تو اس ملک اور اس کے مستقبل پر ایک اچھا اثر ہونا چاہئے۔ یہ ملک اپنی آزادی اور تشکیل کے پہلے دن سے آج تک بطور تجربہ گاہ استعمال ہورہا ہے اور ہم نے کبھی اس سے زیادہ اس کا مقام، اس کا رتبہ بڑھانے کی کوشش نہیں کی۔ ہم ایک تجربہ کرتے ہیں، دوسرا تجربہ کرتے ہیں، بس تجربے ہی کیا کرتے ہیں، ان تجربوں کے نتائج کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں، ہم نے ان نتائج کو کبھی تاریخ کے اسباق کے طور پر نہ تحریر کیا اور نہ ہی بعد میں کسی ایسے ہی فیصلے کے وقت ان کا مطالعہ کیا۔ کبھی سکولوں کالجوں میں محض جملہ برائے جملہ کے طور پر تاریخ سے حاصل ہونے والے مشاہدات اور ان کے اثرات کی بات ضرور کی ہوگی لیکن اس سے زیادہ ہم نے کبھی اس سب کو درخوراعتنا نہیں جانا۔ تاریخ، تاریخ ہے کیونکہ وقت تھمتا نہیں اور اگر تاریخ کے دامن میں کچھ تجربات ہیں تو وہ اب ماضی کا حصہ ہیں اور ہمیں ماضی پر نہیں مستقبل پر نظر رکھنی چاہئے۔ کچھ ایسی ہی منطق ہماری ہے، ہم کسی پرائے تجربے سے سیکھنا نہیں چاہتے، اپنے تجربے خود کرکے دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ہر نئے آنے والے کو خود پر اعتماد ہے۔ اس اعتماد کی بنیاد نہ تو تحقیق ہے نہ تجربہ بس ایک عجب سی لاعلمی اور اکڑفوں ہے جس کا تعلق ضد سے تو جوڑا جاسکتا ہے عقل سے نہیں۔
یہ ہمارے معاملات، ہمارے رویوں اور ہمارے حکمرانوں کے حوالے سے ایک عمومی تجزیہ ہے۔ اس تجزئیے کا تعلق بہرحال تاریخی تجربات سے بھی ہے اور ذاتی علم سے بھی، کچھ مشاہدہ بھی ہے۔ سارے سوالات مشاہدے کی کسوٹی پر آکر یوں آنکڑے میں کئے جاتے ہیں کہ بس خاموش ہوجاتے ہیں۔ اپنے لئے نہ کوئی راستہ پاتے ہیں نہ تبدیلی، یہ مشاہدہ اور تجربہ ہی ہے جو میرے جیسے انگنت لوگوں کو کہتا ہے کہ حکومت وقت کی باتیں کاوشوں اور فیصلے کسی ترازو میں تولنے کی ضرورت نہیں۔ زندگی اب سوچ وبچار کی حدوں سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ تبدیلی کا دعویٰ تھا، آوازیں بھی بہت ہیں لیکن کیا اصل میں تو تبدیلی کچھ بھی نہیں۔ انسان تبدیلی کی بات کرتا ہے لیکن اس کے رویوں کو تو صدیوں کا دوام ہے اور فیصلوں کیلئے راہیں متعین ہیں۔ صرف اتنا سوچنا ہے کہ سی این جی سٹیشنوں کیلئے نئے لائسنسوں کا اجراء دوبارہ جلد ہی ہوگا۔ اس خبر پر یہ قوم، یہ شہزادی پہلے روئی کیوں، پھر ہنسی کیوں؟

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں