صحت ، رمضان المبارک اوربے چاری عورت

رمضان المبارک شروع ہوتے ہی ہمارے گھر کی عورتوں کی محنت دگنی کردی جاتی ہے۔کیونکہ رمضان کے علاوہ مہینوں کے عام دنوں میں جو پکوان پکتے ہیں اس ماہ میں اس سے دوگنا یا کم وبیش پکوان بنوائے جاتے ہیں۔مرد حضرات دو گھنٹے کی سہولت لے کر کام سے جلدی گھر آجاتے ہیں لیکن عورت کو دو سے زیادہ گھنٹے چولہے کے سامنے گزارنے پڑتے ہیں ۔اس ماہ مبارک میںجہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات ہیں وہیں پر ہمارے روزگارکے ادارے بھی اس ماہ مبارک میں کام کے دورانیہ میں بھی چند گھنٹوں کی فرصت بھی دے دیتے ہیں عام دنوں کی طرح آٹھ گھنٹوں کی بجائے چھ گھنٹے کام لیاجاتاہے تاکہ مزدور بھی گھر جاکر آرام کرے اور رات کو اللہ کی عبادت کرنے میں اسے سہولت ہو۔ مزدور کو سہولت مل رہی ہے وہی مرد حضرات گھر جاکر گھرکی عورت کے لئے دردسر بن جاتے ہیں۔اس کی وجہ کچھ یوں ہے کہ ہر کسی کا دل چاہتا ہے کہ دن بھر کے روزے کے بعد شام کو افطاری کے وقت طرح طرح کی نعمتیں ان کے دسترخوان پرسجی ہوں۔ان میں سب سے بڑا حصہ دہی بڑھے اور چاٹ وغیرہ کا ہے اس کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے چٹ پٹے پکوان اور سب سے بڑھ کر رمضان کا خاص الخاص تحفہ پکوڑے تو دسترخوان پر نہ ہوں تو اسے بھی بھلا کوئی افطاری کہے گا۔گھر میں مائیں بہنیں اور بیٹیاں اس مبارک مہینے میں تو گویا سارا دن افطاری کے دسترخوان میں جٹی رہتی ہیں انہیں کہاں وقت ملتا ہے کہ اس ماہ کی برکتوں کو سمیٹ سکیں۔ عبادات کے لئے وقت نکال سکے وہ تو مشکل سے فرض عبادات ہی پوری کرپاتی ہیں۔جب افطاری کے لئے اتنا بڑا دستر خوان سجے گا تودھونے والے برتن بھی دگنے چگنے ہوں گے اور دسترخوان سمیٹتے اور برتن دھوتے دھوتے وہ اتنی تھک جاتی ہے کہ اسے نیند کے علاوہ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔نیند بھی سکون سے نہیں آتی کہ ابھی چند گھنٹوں بعد پھر اٹھناہے اور پھر سے سحری کا سامان کرنا ہے۔
لیکن اس ماہ مبارک میں جتنا ثواب مرد کمارہا ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ عورت ایسے سمیٹ لیتی ہے کہ گھربھر کے بچے بڑے اور بزرگوں کی دعائیں اسے ملتی ہیں اس سے بھی بڑھ کرجیسا کہ اللہ کا حکم ہے کہ تم ایک روزہ دار کو روزہ افطارکروائوگے تو اس کے روزہ کے جتنا ثواب تمہیں بھی ملے گا اور اگر پیٹ بھر کر کھانا کھلوائو گے تو ثواب کو بھی چارچاندلگ جاتے ہیں۔یوں عورت کے لئے یہ ماہ ”ہم خرما ہم ثواب ”کے مصداق ہوجاتا ہے کہ ثواب کا ثواب اور گھربھر کے لوگوں کے دلوں پر راج علیحدہ سے۔دل تو عورت نے جیت لیا لیکن کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ اسے جیت میں ایک مریل گھوڑا ملے بلکہ ہر ایک کی خواہش ہے کہ اس کی جیت کا ثمر چاق و چوبند اور صحتمند گھوڑا ہو۔اب عورت پر پھر ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ اس سارے پکوانوں میں لوگوں کی صحت اور بالخصوص دل کی صحت کا بہت اہتمام کیا جائے۔کیونکہ غیر معیاری اور کولیسٹرول سے بھری غذائیں کھاکر گھر بھر کے لوگ بیمار بھی پڑسکتے ہیں۔اس لئے کوشش یہ ہونی چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ کھانے گھر پر ہی بنائے جائیں کیونکہ اس میں استعمال ہونے والی اشیاء گھر کی مالکن نے خود اپنے ہاتھوں سے چنی ہوتی ہیں۔جب کہ بازاری چیزیں چٹ پٹی تو ضرور ہوتی ہیں لیکن ان کے انگریڈینٹس (اس میں استعمال ہونی والی اشیائ) غیرمعیاری ہوتی ہیں۔
اب ان چیزوں کوگھر میں بنانے کے لئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے لہٰذا خواتین کو چاہئے کہ ۔ کل کے افطاری اور سحری میں کیا پکے گا اس کے لئے آج ہی سوچ لیں۔ خریداری میں چیزوں کے معیار پر خصوصی توجہ دیں، کوشش کریں خود خریداری کریں اگر ایسا ممکن نہ ہوتو جو کوئی بھی خریداری کے لئے جارہا ہے اسے خصوصی ہدایات دیں کہ سبزیاں اور پھل تازہ ہوں اور گلے سڑے نہ ہوں، وقت سے پہلے نہ اتارے گئے ہوں جس سے وہ اکثر ترش ہوتے ہیں۔ سبزیوں کو کاٹ لیں لیکن بہت پہلے پکاکر رکھ نہ لیں ، ان کی نیوٹریشن کو برقرار رکھنے کے لئے صرف آخری وقت میں پکائیں۔ اپنا تمام وقت باورچی خانہ میں نہ گزاریں۔ اپنے وقت کا ٹائم ٹیبل بنالیں اوردوسرے کھانے کے لئے تیاری سے پہلے کچھ وقت آرام کے لئے بھی نکالیں۔ خواتین اپنے کھانے میں کچھ خشک میوہ جات خصوصاً بادام وغیرہ کو شامل کریں۔ افطاری میں وٹامن اور منرل کا خصوصی اہتمام کریں۔ افطاری میں کوشش کریں کہ گھر پر ہی رہیں ہوٹلوں اور ریستورانٹ پر جانے سے پرہیز کریں اور کچھ وقت بچوں کو بھی دیں۔ افطاری یا افطار ڈنر کے بعد چہل قدمی ضرورکریںتاکہ آپ زائد کیلوریز کو ذائل کر سکیں تاکہ آپ کے بدن میں چستی برقرار رہے۔کیونکہ افطاری میں ہم بہت سی ایسی خوراک کرتے ہیں کہ جس سے کیلوریز بہت بڑھ جاتی ہیں۔ یہاں پکوڑوں ہی کو لے لیتے ہیںسب جانتے ہیں کہ اس میں کولیسٹرول سب سے زیادہ ہوتا ہے ایک تو یہ تلے ہوئے ہوتے ہیں اور پھر اگر غیرمعیاری تیل یاگھی میں تلے ہوں تو پھر یہ زہر سے کم کا درجہ نہیں رکھتے۔گھر پربنے پکوڑے تو بہت ہی اچھے ہیں لیکن اگر بہ امر مجبوری بازار سے لینے پڑیں تو خریدتے وقت ہم اس دکاندارکے پاس دیکھیں گے تو ہمیں غیر معیاری گھی کے کنستر او رڈبے نظر آئیں گے۔اس کے علاوہ ان پکوڑوں میں استعمال ہونے والے آلو اور پیاز بھی اکثر گلے سڑے اور ریڑھی والوں سے بچے کچھے ہوئے ہوتے ہیں۔اسی طرح پکوڑوں میں استعمال ہونے والے مصالحہ جات بھی حد درجہ کے غیر معیاری اور مضرصحت ہوتے ہیں۔پکوڑوں سے آگے بڑھیں تو دہی بڑھے ‘ بازاری چاٹ اور دیگر میٹھے اور نمکین پکوان اگر رمضان کا پورا مہینہ اس طرح کھالئے جائیں تو آپ کا دل کے ماہر ڈاکٹر(کارڈیالوجسٹ ) کے پاس جانا تو ضروری ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ معدہ کی بھی تکلیف علیحدہ سے ہوسکتی ہے۔
اتنے بڑے نقصان سے بچنے کے لئے میں اپنی مائوں بہنوں اور بیٹیوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ اس ماہ میں معمول سے زیادہ محنت سے جی نہ چرائیں کیونکہ یہ ایک ماہ کی محنت آ پ کی اپنی اور گھربھرکی ساری عمر کی صحت کے لئے بہت اہم ہے۔افطاری کے لئے جتنی بھی چیزیں خریدی جائیں خود چن کر لیں اگر جہاں خواتین بازار نہ جاتی ہوں تو مرد حضرات کو خصوصی ہدایت کریں کہ جلدی میں کوئی بھی چیز نہ خریدیں اور کم قیمت کی لالچ میں غیرمعیاری اشیاء ہرگز ہرگز خرید کر نہ لائیں۔چٹورے پن کے لئے بازار کی کسی چیز پر بھروسہ نہ کریں اور ہر چیز چاہے وہ پکوڑے ہوں ‘ سموسے ہوں’ چناچاٹ ہو یا فروٹ چاٹ گھرپر اپنی نگرانی میں بنائیں۔یہاں میں مرد حضرات سے بھی گزارش کروں گا کہ وہ اس ماہ میں کام کی نوعیت کودیکھتے ہوئے عورتوں پر بلا وجہ فرمائشوں کا ڈھیر نہ لگاتے جائیں جب انہیں دفترا ور کام کی جگہ سے چند گھنٹے پہلے چھٹی ملی ہے تو عورت کا بھی یہی حق ہے کہ اسے بھی اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ عبادات کرنے دی جائے۔ اگر ہوسکے تو مرد حضرات کام سے واپس گھر آکر آرام کرسی پر بیٹھ کر صرف حکم نہ چلائیں بلکہ گھر کی عورتوں کا ہاتھ بٹاسکتے ہیں۔کچھ نہیں تو فروٹ کاٹنے اور شربت بنانے جیسے آسان کام تو کم از کم کرہی لینے چاہئیں ۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت