صنعتوں کو بجلی کی فراہمی پر یوٹرن

وفاقی بجٹ میں انڈسٹریل زونز کو بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے استثنیٰ دینے اور بلا تعطل چوبیس گھنٹے توانائی کی فراہمی کا اعلان کیا گیا تھااب حکومت کی جانب سے بجلی بچت کے لئے کمرشل فیڈرز شام سات سے دس بجے تک بند رکھنے کے فیصلے کابینہ سے منظوری لینے کا عندیہ دیا جارہا ہے یہ فیصلہ تاجروں کی جانب سے دکانیں جلد بند کرنے سے انکار پر متبادل تجاویز کا حصہ ہے حکام کے مطابق کمرشل فیڈر کی بندش سے پانچ ہزار میگاواٹ اور ٹیوب ویل فیڈر کی بندش سے تین ہزار میگا واٹ بجلی کی بچت ہو گی ایک ہفتے کے اندرحکومت کے دو اعلانات اور فیصلوں سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ حکومت بغیر کسی تیاری اور منصوبہ بندی کے بجلی کی کمی اور بدترین لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہی ہے جو کسی ڈوبتے شخص کے بے ہنگم ہاتھ پیرمارنے کے مترادف عمل ہے ہم نے قبل ازیں انہی سطور میں حکومت کے گزشتہ اعلان پریہ سوال اٹھایا تھا کہ جب ملک میں گھریلو صارفین لوڈ شیڈنگ کے باعث سخت پریشانی کا شکار ہیں ایسے میں حکومت صنعتی صارفین کو بلا تعطل بجلی کی فراہمی کا دعویٰ کیسے کر سکتی ہے جہاں تک تاجروں کے دبائو کا سوال ہے حکومت اس ضمن میں بلاوجہ دبائو میں آگئی ہے وگر نہ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں کہ مارکیٹ بند کرنے کے اوقات کار میں حکومت کی جانب سے کمی کی گئی ہو یہ بات خود تاجروں کے مفاد میں نہیں کہ وہ جنریٹر چلا کر اضافی خرچ کرکے کاروبار چلائیں ایسا ہونا اس لئے بھی عین یقینی ہے کیونکہ ان کے دبائو پر حکومت نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا تو عندیہ دیا ہے لیکن عملی طور پر ممکن نہیں کہ تاجروں کو بازاروں اور دکانوں کو چکا چوند رکھنے کے لئے وافر مقدار میں بجلی فراہم کرے بہرحال اس صورتحال سے قطع نظرحکومت نے بامر مجبوری صنعتی صارفین کے لئے تین گھنٹے کے لئے بجلی کی عدم فراہمی کا جو طریقہ کار وضع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اس ضمن میں صنعتی صارفین کو تعاون کرنا چاہئے اور اپنا پیداواری شیڈول اس طرح تیار کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کا کام بھی زیادہ متاثر نہ ہو۔
نانبائیوں کا حکومتی عملداری کو کھلا چیلنج
عوام 135گرام کی روٹی پندرہ روپے میں فروخت کرنے کی اجازت دینے کے انتظامیہ کے دبائو میں آنے پرمعترض تھی کہ نانبائیوں کی جانب سے پندرہ روپے کی روٹی دینے سے انکار کرنے کا اعلان سامنے آیا ہے انہوں نے دھمکی دی ہے کہ روٹی کی قیمت نہ بڑھی تو وزن کم کر دیں گے یوں ضلعی انتظامیہ کو مذاکرات کے دوران مقرر کردہ قیمت کو لاگو کرنے میں ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے جس میں ماضی کے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں ان کی بدترین ناکامی نوشتہ دیوار ہے ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ کو نہ تو آٹے کی قیمتوں کا علم ہے اور نہ ہی ان کو یہ معلوم ہے کہ فی بوری آٹے سے کتنے پیڑے بن سکتے ہیں اور جملہ لاگت ملاکر نانبائیوں کو منافع ملتا ہے یا واقعی وہ خسارے کا شکار ہیں جس کا وہ رونا رو کر روٹی کی قیمت میں مزید اضافہ اور بصورت دیگر مزید کم وزن روٹی کی فروخت کی علی الاعلان دھمکی دے رہے ہیں جس پر ان کی جانب سے عملدرآمدتو یقینی ہے بلکہ پہلے ہی سے وہ کم وزن کی روٹی فروخت کر رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ نانبائیوں نے روٹی کا وزن مزید کم کرنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں جس کا کوئی جواز نہیں انتظامیہ اور نانبائیوں کے درمیان چوبیس گھنٹے قبل ہی جومعاہدہ طے پایا ہے اگر اسے حسب سابق لاگو کرنے میں انتظامیہ ناکام رہی اور نانبائی جیت گئے تو یہ حکومت کی عملداری اور انتظامیہ کی ناکامی پر بڑا سوالیہ نشان ہو گا اس صورتحال میں عوام کے پاس سڑکوں پر نکلنے کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی نہیں رہے گا کیا حکومت اور انتظامیہ اس کے لئے تیار ہیں یا وہ پھرمعاہدے پر پابندی کروانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گی ۔

مزید پڑھیں:  صحت کارڈ سے علاج میں وسعت