صوبے بمقابلہ وفاق

وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ اسلام آباد کی طرف جو لوگ آ رہے ہیں یہ کوئی مارچ نہیں ہو رہا بلکہ دو صوبے وفاق پر حملہ آور ہورہے ہیں اور یہ احتجاج عوام نہیں ہے بلکہ یہ صوبائی حکومتیں کروا رہی ہیں۔وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ یہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ آمد و رفت کے راستوں کو کھلا رکھے اور آج وزارت داخلہ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت کو تحریری طور پر لکھا ہے اور انہیں یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ آج تیسرا دن ہے جہاں کروڑوں لوگ چند سو شرپسند احتجاجیوں کی وجہ سے رسوا ہو رہے ہیں اور اپنی منزل پر پہنچنے اور ضروریات زندگی پورا کرنے سے قاصر ہیں۔وزیر داخلہ نے کہا کہ صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داری پوری کریں ورنہ اگر انہوں نے اس بات کو سنجیدہ نہ لیا تو انہیں یہ باور کروانا چاہتا ہوں کہ اس کے آئینی نتائج ہوں گے۔وزیرداخلہ کے تحریری انتباہ کے بعد توقع ہے کہ صورتحال کے حوالے سے صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داری نبھائیں گی ممکن ہے فی الوقت جوچند کارکنوں کے ذریعے سڑکیں بند کرنے کا سلسلہ ہے اسے ترک کردیا جائے البتہ اسلام آباد کے گھیرائو کی مساعی کی تیاریاں اس وقت تک ہی جاری رکھی جا سکتی ہیں جب تک کوئی درمیانی راستہ نہ نکالاجائے جہاں تک جاری احتجاج کا تعلق ہے اور حقیقی آزادی مارچ کے دوبارہ شروع کرنے کا سوال ہے ان دونوں میں اس وقت ہی جان پڑ سکتی ہے جب عمران خان دوبارہ سے میدان میں نکلنے کے قابل ہوسکیں اس وقت کا احتجاج غیرموثر ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی ناراضگی کا بھی سبب بنتا جارہا ہے متاثرہ لوگوں کی جانب سے سوال اٹھایاجارہا ہے کہ کیا احتجاج کی آڑ میں ان کی زندگیاں متاثر کرنا ان کا حق ہے نیز عوام راستوں کی بندش سے سخت نالاں ہیں اس سلسلے کوزیادہ دیر جاری رکھنا خود تحریک انصاف کے مفاد میں نہیں خیبر پختونخوا میں تو مظاہرہ کرنے والوں کی گرفتاری کا پولیس کی جانب سے باقاعدہ اعلان کر دیاگیا ہے اور گزشتہ دنوں مظاہرہ کرنے والوں کی نادارا سے شناخت کے بعدگرفتاری عمل میں لائی جائے گی ممکن ہے اس اعلان پرعملدرآمد نہ ہو تاہم پولیس کوقانون کی پاسداری سڑکیں کھلی رکھنے اور عوام کے لئے مشکلات کا باعث بننے والی رکاوٹوں کو ہٹانے کی ذمہ داری بہرحال پوری کرنی ہوگی جبکہ پشاور کے احتجاجیوں کی گرفتاری کاعندیہ ایک خاص تناظر میں دبائوکابھی اشارہ ملتا ہے جس سے قطع نظر بہرحال صوبائی حکومتوں کی جانب سے مرکز کے محاصرے کی کیفیت اور عوام کے لئے مشکلات کاباعث بننے والے امورکا بہرحال نوٹس لینا ہوگا۔آمدورفت کی اگراسی طرح بندش رہی تو بہت جلد خیبر پختونخوا میں آٹا بحران اور اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا ہوسکتی ہے ایسے میں طویل احتجاج موثر ہوتا نظر نہیں آتابہتر ہوگا کہ معاملات الجھانے کی بجائے سلجھانے اور قانون کے تقاضوں کو پورا کرنے کا راستہ اختیار کیا جائے اور کسی انتہائی اقدام سے طرفین کو گریز کرنا چاہئے۔
موسمیاتی تبدیلی کا بوجھ
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا بوجھ برابری کی بنیاد پر نہیں بلکہ منصفانہ طور پر تقسیم ہونا چاہیے، یہ موسمیاتی انصاف کا معاملہ ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ کمزور طبقے پر پڑتے ہیں۔کوپ27کے اختتام پر گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اس دہائی کا اہم بحران ہے اور ہم اس کے خلاف اپنی اجتماعی لڑائی کے تاریخی لمحے میں ہیں، ہمارے پاس خاص طور پر ایسے ممالک اور کمیونٹیز جو انتہائی خطرے سے دوچار ہیں۔انہوں نے کہا کہ اب یہ ایک مسلمہ سائنسی حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ ہماری منصوبہ بندی سے کہیں زیادہ تیزی سے ہو رہی ہے۔بدقسمتی سے موسمی تغیرات سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے جو پاکستان کے لئے سخت مشکلات اور پریشان کن حالات کا باعث ہے صورتحال کا تقاضا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث جو خطرات سرپرمنڈلا رہے ہیں ان سب کا آئندہ کے لئے احاطہ ہونا چاہئے جبکہ حالیہ تباہ کاریوں کے اثرات سے نکلنے کے لئے پاکستان کی مدد میں مزیدتاخیر کامظاہرہ نہ کیا جائے دنیا کو اس امر کابھی ادراک ہونا چاہئے کہ خود انہی کے ہاتھوں خاص طور پر ترقی یافتہ صنعتی ممالک عالمی فضا کوجس بری طرح سے آلودگی کاشکار بنا رہے ہیں ترقی پذیر ممالک ہی کو نہیں اس قدرتی تباہی کا رخ خود ان کی طرف بھی مڑسکتا ہے اور وہ بھی اس کی لپیٹ میں آکر تباہی کا شکار ہوسکتے ہیں۔
افسوسناک واقعہ
طورخم میں امیگریشن چیک پوسٹ پر تعینات وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے)کے اہلکار کی جانب سے افغان خاتون کو ہراساں کرنے کا واقعہ نہایت ہی افسوسناک ہے سوشل میڈیا پر خاتون کی ویڈیو زیر گردش ہے جس میں افغان خاتون ایف آئی اے کے عہدیدار کو شکایت کررہی ہیں۔ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نامعلوم افغان خاتون روتے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ امیگریشن عمل کے دوران ملزم نے ان کے جسم کو بار بار چھونے کی کوشش کی تھی۔یہ ایک نہایت سنگین واقعہ ہے اس کے علاوہ بھی طورخم گیٹ پر افغانوں سے ناروا سلوک کی شکایات عام تھیں جن کابروقت نوٹس لینے کی زحمت گوارا کی جاتی تو نوبت یہاں تک نہ آتی متعلقہ اہلکار کی معطلی کافی نہیں تحقیقات کے بعداسے برخاست کیاجانا چاہئے اور متعلقہ انچارج سے بھی سخت باز پرس کرکے آئندہ کے لئے سنجیدہ تنبیہ کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کے واقعات کی نوبت نہ آئے اور دونوںملکوں کے تعلقات متاثر نہ ہوں۔

مزید پڑھیں:  پولیس کی بروقت کارروائی اور تشدد