صورتحال اتنی بھی بری نہیں

آئے روز کے بیانات اور ممکنہ تاخیری اقدامات اور حیلے بہانوں سے اب یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ عدالتی دبائو پرانتخابی تاریخ دینے کے باوجود دیگر طریقوں سے اس کے التواء کی سنجیدہ کوششیں ہو رہی ہیں اور دی گئی تاریخوں پر انتخابات کا انعقاد ہوتا نظر نہیں آتا گورنر خیبر پختونخوا نے توہین عدالت کے ارتکاب سے بچتے ہوئے تاریخ تودے چکے لیکن اب ان کا یہ بیان اس امر کا عکاس ہے کہ انتخابات ان کی دی گئی تاریخ پر نہ ہو سکیں۔گورنر خیبر پختونخوا غلام علی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے خط کے مطابق خیبر پختونخوا اس وقت دہشت گردی کا مرکز بنا ہوا ہے امریکی انخلا کے بعد، تحریک طالبان افغانستان کی طرف سے امارات اسلامی کے قیام اور غیر حتمی مفاہمتی عمل نے خیبرپختونخوا میں اندرونی سلامتی کے چیلنجز کو مزید بڑھا دیا ہے۔ موجودہ خطرات میں سکیورٹی فورسز پر حملے، خودکش بمباری، سرحد پار سے حملے،فائرنگ ، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا کی وارداتین معمول ہیں ۔ غیر قانونی حالات ، نسلی فرقہ وارانہ تقسیم، ریاست مخالف پریشر گروپس کی موجودگی اور مسلح افواج مخالف پروپیگنڈے نے داخلی سلامتی کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ اس وقت دہشت گردی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں ۔گورنر نے خیبر پختونخوا میں صورتحال کا جس غیر ذمہ دارانہ انداز میں نقشہ کھینچا ہے اس سے یہ سوال پیدا ہونا فطری امر ہے کہ اگر ان کی پیش کردہ تصویر واقعی میں درست ہے تو پھر صوبے میں حکومت پاکستان کی عملداری کی جگہ خدانخواستہ کسی اور کی عملداری قائم ہو چکی ہے گورنر کے بیان کردہ حالات کی روشنی میں دیکھا جائے تو گورنر سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکومت بے بس اور کٹھ پتلی ہے اور صوبے میں ان کی عملداری نام کی کوئی چیز نہیں بلاشبہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال تسلی بخش تو نہیں خطرات کا بھی احساس ہوتا ہے مگر صورتحال اس قدر بھی بری اور خراب نہیں جس کا نقشہ گورنر نے کھینچا ہے انتخابات کا التواء اور یکبارگی عام انتخابات کے انعقاد پر بات چیت ہو تو احسن ہوگا لیکن اس طرح کی تصویر پیش کرکے خوف و ہراس پیدا نہ کی جائے اور اگر گورنر جیسے ذمہ دار عہدے پر فائز فرد کی رپورٹ درست ہے تو پھر وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور سکیورٹی کاوہ سارا موثر نظام کہاں ہے اور کیوں اس طرح کی صورتحال سے صرف نظر ہو رہی ہے ۔ سیاسی مفادات کے لئے صوبے کو دائو پر لگانے کا سلسلہ بند ہو تو بہتر ہو گا۔

مزید پڑھیں:  انصاف۔ بھٹو سے شوکت صدیقی تک