3 383

ضم اضلاع آسامیاں،بی آرٹی یا تابوت

عوام کی سرکاری محکموں سے شکایات عام ہیں، جنہیں سننے کیلئے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی سطح پر باقاعدہ شکایت لکھوانے، ان کا نوٹس لینے، متعلقہ محکموں سے جواب طلبی وحل کا ایک نظام موجود ہے۔ کسی بھی سرکاری محکمے یا عہدیداروں کیخلاف باثبوت شکایت درج کرنے کیلئے موزوں فورم موجود ہیں، بہرحال بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان فورمز سے میڈیا زیادہ مؤثر ہے، یقیناً یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم لوگوں کی شکایات سے حکام کو آگاہ کریں، اس کالم کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔ ضم قبائلی اضلاع کے عوام کی دو بڑی شکایات اکثر ملتی ہیں، ایک یہ کہ ان کے وسائل انہی کے استفادے کیلئے ہونے چاہئیں، اس ضمن میں ان سے ناانصافی ہورہی ہے، گزشتہ کالم میں بھی اس حوالے سے شکایت شامل تھی۔ دوسری غیرمقامی افراد کی ان اضلاع میں تقرری اور ان کا غیرحاضر ہونا بڑا مسئلہ ہے۔ آج کے واٹس ایپ پیغام میں بھی جنوبی وزیرستان کے حیات پریغال نے محکمہ صحت اور تعلیم میں غیرمقامی افراد کی بھرتی کی شکایت اور نشاندہی کی ہے۔ اپتھامیٹک ٹیکنیشن اے آئی پی (AIP) پراجیکٹ ڈی ایچ او ساؤتھ وزیرستان کیلئے شارٹ لسٹ ہونے والے سات افراد کی فہرست شیئر کی ہے جس پر ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ضلع جنوبی وزیرستان کے دستخط ومہر موجود ہے جن میں سے دو کا ڈومیسائل بٹگرام، ایک کا دیربالا، دو کا اورکزئی، ایک کا کرک اور ایک کا ایف آر پشاور کا ہے۔ اس ساری فہرست میں ضلع جنوبی وزیرستان کے ایک اُمید وار کا نام بھی شامل نہیں چونکہ یہ یکطرفہ شکایتی مراسلہ ہے اس لئے دوسری طرف ممکنہ جواب کی ہم گنجائش رکھتے ہیں کہ اگر ڈی ایچ او کی جانب سے کوئی وضاحتی مراسلہ آئے تو اسے بھی کالم میں جگہ دی جائے گی۔ اس ضمن میں صرف اتنا ہی عرض کرسکتے ہیں کہ اولاً جنوبی وزیرستان سمیت نہ صرت تمام ضم قبائلی اضلاع بلکہ تمام پسماندہ اضلاع کے نوجوان خود کو ملازمتوں کا اہل بنانے اور میرٹ پر آنے کی بھرپور جدوجہد کریں، ثانیاً یہ کہ مقامی سطح پر خواہ وہ پراجیکٹ ہی کیوں نہ ہو مقامی افراد کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ سوئم یہ کہ اس شکایت پر آنکھیں بند کر کے یقین کیا جا سکتا ہے کہ غیرمقامی افراد کی تقرری مختلف دیگر قسم کے مسائل کا بھی باعث بنتا ہے جس سے قطع نظر غیرمقامی افراد کے فرائض منصبی پر حاضر نہ ہونے اور تنخواہ کی برابر وصولی سے مقامی افراد کی ایک تو ملازمتوں سے محرومی کا شدید احساس اور دوم ان کی خدمت اور مسائل حل نہ ہونا احساس محرومی کا باعث بنتا ہے۔ وزیرصحت، محکمہ صحت اور نظامت صحت کو اس شکایت کا نوٹس لینا چاہئے اور اس کا ازالہ ہونا چاہئے۔ بھرتیوں میں ناانصافی ہوئی ہو تو سزا بھی ملنی چاہئے۔ ملی بھگت، سفارش اور ممکنہ بدعنوانی ثابت ہو تو سخت احتساب کیا جائے تاکہ آئندہ کیلئے مثال قائم ہو اور سرکاری افسران عبرت حاصل کریں۔ایک قاری نے بڑا احتجاجی قسم کا برقی مراسلہ بھیجا ہے، ان کا کہنا ہے کہ حکومت ایک جانب ایسے اقدامات کرتی ہے جو کورونا سے بچاؤ کیلئے لازمی ہیں لیکن خود حکومتی طور پر بجائے اس کے کہ حفاظتی تدابیر یقینی بنائے جائیں ان کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سکول بند، بازار بند اور ہسپتال بھر چکے ہیں لیکن بی آر ٹی کی بسوں کی تعداد بجائے اس کے کہ بڑھا دی جائے، ٹرانس پشاور کے ہوشیار حکام نے پہلے مال آف حیات آباد اور گلبہار کے درمیان چلنے والی سروس بند کر دی اور جس روٹ پر مسافروں کے رش کا انہوں نے خود اعتراف کرتے ہوئے اسے مقبول سروس قرار دیا تھا، کارخانوں سے چمکنی کے درمیان چلنے والی ایکسپریس سروس بھی بند کر دی۔ ہر طرف سے پابندیاں اور حفاظتی تدابیر کا درست واویلا ہو رہا ہے، تو بی آرٹی کی بسیں کم کر کے دو دو سروس بند کر کے مسافروں کا رش بڑھانے پر ٹرانس پشاور کے بزرجمہروں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ کمپنی کو فائدہ دینے کیلئے بسوں کو تابوت بنانے کی اجازت تمہیں کس نے دی۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کسی بھی دن چلنے والی بسوں کی تعداد اور مسافروں کی تعداد کا ڈیٹا طلب کر کے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ گنجائش سے کتنے زیادہ مسافروں نے وباء کی اس شدت کے دوران مجبوراً سفر کیا۔ مال آف حیات آباد میں فیز6 کی سب سے زیادہ رش والے روٹ پر بسوں کی تعداد کم کرنے سے جو رش دیکھنے کو مل رہا ہے اس کی فوٹیج ہی کوئی منگوا کر دیکھ لے، معلوم نہیں حکومت بعض معاملات میں تو احسن کارکردگی اور اقدامات کرتی ہے لیکن چراغ تلے اندھیرا کے مصداق سرکار کی چھتری تلے بس سروس کو کیوں نظرانداز کیا جارہا ہے۔ جس صورتحال کی ہمارے قاری نے نشاندہی کی ہے اور جو تجاویز انہوں نے دی ہے اس میں اضافہ کی گنجائش نہیں، ان کی شکایت ایسی نہیں جس کی تحقیقات کی ضرورت ہو۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اگر بی آرٹی بسوں میں کھڑے ہو کر سفر کرنے کی ممانعت فرمائیں اور ٹرانس پشاور کو اس شرح سے بسیں چلانے کو یقینی بنانے کی ہدایت کریں تو مناسب ہوگا۔ حالات کے پیش نظر تو بی آر ٹی سروس معطل کرنے کی تجویز مناسب لگتی ہے لیکن بہ امرمجبوری گھر سے نکلنے والے افراد کا خیال آتا ہے کہ پھر ان کا کیا ہوگا؟۔
قارئین اپنی شکایات اور مسائل اس نمبر 9750639 0337-پر میسج اور وٹس ایپ کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟