افغان خاتون

”میں پولیس اہلکار تھی، اب بھیک مانگتی ہوں”، افغان خاتون

ویب ڈیسک: ایک سال قبل افغانستان سے امریکا اور برطانیہ کے فوجیوں کے انخلاء کے افراتفری کے درمیان کے طالبان نے افغانستان پر کنٹرول کنٹرول سنبھال لیا۔

طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے ایک سال بعد افغان خواتین کی زندگیوں کو بنیادی طور پر تبدیل کر دیا گیا۔ ان کے حقوق کو کم اور آزادیوں کو محدود کر دیا گیا۔ خواتین کی تعلیم پر ممانعت اور انہیں ملازمتوں سے ہٹانے اور انہیں پردگی میں زند گی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا۔

مریم نامی افغان خاتون جو افغانستان کے محکمہ پولیس میں بطور آفسر خدمات سرنجام دے رہی تھیں طالبان کی حکومت آتے ہی اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ سابق پولیس آفیسر مریم کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے تک میں نے محکمہ پولیس میں بطور افسر کام کیا۔ میرے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا لیکن میں اپنی پولیس کی تنخواہ پر اپنی دو بیٹیوں کی کفالت کر سکتی تھی، میں انہیں وہ سب کچھ دے سکتی تھی جس کی انہیں ضرورت تھی۔

مزید پڑھیں:  گندھارا یونیورسٹی کے 8 ویں کانووکیشن کا انعقاد، طلبہ میں گولڈ میڈلز بھی تقسیم

طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد میری نوکری ختم ہو گئی اور اب میں سڑک پر آگئی ہوں بھیک مانگ کر اپنے گھر اور بیٹیوں کی ضروریات پوری کررہی ہوں۔

مزید پڑھیں:  4 سالوں میں 5 لاکھ اسلحہ لائسنس جاری، ریکارڈ کی چھان بین شروع

ان کا کہنا ہے کہ طالبان ان خواتین کا شکار کر رہے ہیں جو سکیورٹی سروسز میں کام کرتی تھیں۔ میں اب بھی خوفزدہ ہوں کہ وہ مجھے ڈھونڈ لیں گے۔ گزشتہ سات مہینوں سے میں اپنی بیٹیوں کا پیٹ پالنے کے لیے سڑکوں پر بھیک مانگ رہی ہوں میرے پاس اور کوئی کام نہیں۔ ایسی بہت سے خواتین ہیں جو کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ پتہ نہیں مسقتبل میں کیا ہوگیا۔