طرفداری سے گریز مثبت سفارتکاری

وزیراعظم شہبازشریف اور وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس میں شرکت کے سلسلے میں اپنے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران اپنے منصبوں سے دوطرفہ اور کثیر الجہتی ملاقاتیں کیں، یہ بات اطمینان بخش ہے کہ کسی کی طرفداری کا خطرناک راستہ اختیار کرنے کی بجائے امریکہ، چین، روس اور مسلم دنیا سمیت تمام ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ان کی ملاقاتیں یکساں طور پر خوشگوار رہی ہیں، ان کی اس سفارت کاری کی کامیابی یا ناکامی مستقبل میں ہی سامنے آئے گی، لیکن یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے جو کچھ کہا درست کہا اور ایسے متنازع بیانات دینے سے گریز کیا، جن سے پاکستان کے قومی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔
دوسرا حوصلہ افزاء عنصر یہ تھا کہ دونوں رہنماؤں نے نیویارک میں اپنی تمام تر مصروفیات میں یہ واضح کیا کہ پاکستان کے قومی مفادات ہی ہمارے طرز عمل کا محور ہیں، وزیراعظم اور وزیرخارجہ کی عالمی رہنماؤں، تھنک ٹینکس اور میڈیا کے ساتھ بات چیت میں ایک مشترک بات یہ تھی کہ انہوں نے ایسی کوئی بھی بات کہنے سے گریز کیا جس سے یہ تاثر ملتا کہ پاکستان بین الاقوامی میدان میں کسی ایک طاقت کے بلاک میں شامل ہے، ایسا کوئی تاثر دینے سے یقیناً پاکستان کے قومی مفادات کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔
خارجہ تعلقات میں قائد اعظم محمد علی جناح کا یہ مضبوط مؤقف ہمارے لئے رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ پاکستان سب کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہے، دراصل وہ یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان جیسے نئے اور درمیانے درجے کے ملک کے لیے بلاک یا اتحاد کی سیاست کا حصہ بننا ٹھیک نہیں ہے، لہذا پاکستان نے ، جہاں تک ممکن ہوا، ہمیشہ تمام اہم عالمی کھلاڑیوں یعنی امریکہ، چین، روس ( سابق سوویت یونین ) اور مسلم ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو برقرار رکھا ہے اور یہ پالیسی پاکستان کے لئے سود مند رہی ہے، بلاک یا اتحاد کی سیاست سے گریز کی بدولت ہی پاکستان 1970ء کی دہائی میں امریکہ اور چین کے تعلقات میں پل کا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوا تھا جس کے ثمرات وہ ابھی بھی بین الاقوامی سطح پر اپنی ایک مفاہمت کار کی ساکھ کے طور پر حاصل کر رہا ہے۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے میڈیا سے حالیہ بات چیت میں درست کہا ہے کہ ہم کوئی جیو پولیٹیکل فٹ بال نہیں ہیں کہ ایک بڑی طاقت دوسری کے خلاف کھیلے، پاکستان کو بالکل ایسی ہی خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے، افغانستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے لڑی جانے والی مختلف جنگوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے پاکستان پہلے ہی بے پناہ نقصان اٹھا چکا ہے، پاکستان کی خارجہ اور تذ ویراتی پالیسی ساز اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سامنے آنے والے بیانات سے لگتا ہے کہ یہ سوچ پہنپ چکی ہے کہ پاکستان کے لیے بین الاقوامی تنازعات سے دور رہنا ہی بہتر ہے،اب اسلام آباد میں پالیسی ساز اس بات پر قائل ہیں کہ پاکستان کو معاشی ترقی کے ذریعے اپنی قومی سلامتی اور سالمیت کو برقرار رکھنے کا واحد راستہ اپنانا چاہیے، پاکستان کسی صورت بین الاقوامی طاقت کی سیاست میں غیر ضروری طور پر طرفدار بننے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
پاکستان جیسے ملک کے لیے، جسے پہلے ہی معاشی تنزلی، موسمیاتی تباہی، توانائی کی قلت، انسانی ترقی کے ناقص اشاریوں، نظم و نسق کے مسائل جیسے مسائل درپیش ہیں، اسے امریکا، چین، روس اور مشرق وسطیٰ کے تیل سے مالا مال ملکوں سمیت تمام ممالک کے تعاون کی ضرورت ہے، یہ طاقت کے ان مراکز میں سے کسی کے ساتھ بھی کشیدہ تعلقات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر ابھرا ہے، پاکستان کو چین پاکستان اقتصادی راہداری کی چھتری تلے مواصلات، توانائی اور صنعتی ترقی کے شعبوں میں انفراسٹرکچر کی تعمیر سمیت متعدد شعبوں میں چینی تعاون کی ضرورت ہے، اسی طرح ہم امریکہ کے ساتھ خراب تعلقات کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے، جو ہماری برآمدات خاص طور پر ٹیکسٹائل کے شعبے کی برآمد ( پاکستان کی کل برآمدات کا تقریباً 60 فیصد ہے) کے لئے ایک پرکشش مقام ہے، پاکستان کے دفاعی صنعت میں بھی امریکہ کے ساتھ تاریخی طور پر اچھے تعلقات رہے ہیں اور امریکہ پاکستان کو دفاعی شعبے میں تعاون فراہم کرنے والے اہم ممالک میں شامل ہے۔
اسی طرح پاکستان کو روس کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، جو توانائی کے وسائل سے مالا مال اور خوردنی تیل اور گندم کی خریداری کے حوالے سے بھی ایک پسندیدہ مللک ہے، پاکستان کو متعدد وجوہات کی بنا پر مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات کی ضرورت ہے، جہاں کام کرنے والے لاکھوں پاکستانی ان ممالک سے ترسیلات زر کا بنیادی ذریعہ ہیں، اس کے علاوہ مختلف حساس معاملات پر عرب ممالک پاکستان کو سفارتی حمایت فراہم کرتے ہیں جبکہ یہ ممالک تیل اور گیس کے شعبے میں بھی پاکستان کے اہم سپلائرز ہیں۔
(بشکریہ ،د ی نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات