4 258

طویل العمری کا راز۔۔ اور مسکین کا کا

سو سال تک زندہ رہنے کو شاید طویل العمری کہا جاسکتا ہے، تاہم ہارورڈ میڈیکل سکول سے وابستہ جینیات کے پروفیسروں کا خیال ہے کہ انسانوں کیلئے اس سے بھی زیادہ طویل زندگی کا حصول ممکن ہے۔ بلاشبہ مسابقت اور مقابلے کے اس دور میں سو سال سے زیادہ عمر کے لوگ ناپید ہوتے جارہے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے اپنے علاقے(بحرین سوات) میں سوسال سے زیادہ عمر پانے والے افراد کی ایک کثیر تعداد یکھی ہے۔ سو سال سے زیادہ عمر پانے والوں میں سے ایک کا نام مسکین کا کا ہے۔ ان کی عمر 130سال سے زیادہ بتائی گئی (تحقیق کے بعد ان کی عمر 107/108 کے لگ بھگ ہی نکلی) یہی وجہ تھی ان کا دیدار ہی ہماری ایک دیرینہ خواہش بن گئی اور بالآخر یہ خواہش پوری بھی ہوگئی۔ جب ہم گاؤں آئین (بحرین سوات) میں واقع ان کے گھر پہنچے تو ان کے سب سے چھوٹے صاحبزادے (سلطان) اور نواسے نے خوش اخلاقی اور شائستگی سے ہمارا استقبال کیا اور اچھی مہمان نوازی کی۔ انہوں نے ہمیں اپنے بیٹھک (مہمان خانہ) میں بٹھایا اور کہا کہ وہ والد صاحب کو یہیں پر لائیں گے۔ مسکین کاکا کی طویل العمری کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے ان کے بیٹے سے کہا کہ اگر ضعف کی وجہ سے وہ یہاں آنے کے متحل نہیں ہو سکتے تو انہیں تکلیف دینے کی ضرورت نہیں، لیکن ہمیں بتایا گیا کہ وہ سہارے کی مدد سے یہاں آسکتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد ہم نے مسکین کاکا کو اپنے سامنے موجود پایا۔ لمبا اونچا قد، گورا رنگ اور بڑی بڑی آنکھیں، ایسا لگ رہا تھا کہ ہم تاریخ کوہستان کے اوراق اُلٹ رہے ہیں اور وہ سارے لوگ زندہ ہوگئے ہیں، جن کا ہم نے فقط نام سنا تھا۔ جہاں تک ان کی عمر کا تعلق ہے تو شناختی کارڈ میں ان کی تاریخ پیدائش 1916 درج کی گئی ہے، شناختی کارڈ میں عموماً عمر کم ہی درج کی جاتی ہے۔ غالب امکان ہے کہ ان کی اصل تاریخ پیدائش1912/1913 ہی ہے۔ آپ کو وہ زمانہ بھی یاد ہے جب بادشاہ صاحب نے پہلی بار بحرین کو ریاست سوات میں شامل کروایا اور یہ غالباً 1919/20 کی بات ہے۔ 1935 کو جب کوئٹہ میں زلزلہ آیا تو وہ کوئٹہ میں تھے اور اس وقت ان کی عمر اکیس بائیس سال تھی۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال اُبھر رہا ہوگا کہ آخر ان کی طویل العمری کا راز کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک لطیفہ ملاحظہ کیجئے۔ ایک صحافی نے جارج برنارڈشا سے انٹرویو کے دوران پوچھا کہ ان کی طویل العمری کا راز کیا ہے؟
برنارڈشا نے جواب دیا ”میں ہمیشہ سر ٹھنڈا اور پیر گرم رکھتا ہوں” جب یہ انٹرویو شائع ہوا تو اس کو پڑھ کر ہزاروں افراد نے سر پر برف رکھنی شروع کر دی اور پاؤں کو سینکنا شروع کر دیا اور اس کے نتیجے میں کسی کو سر درد اور اکثر کو بخار ہوگیا۔ ایک بڑا جلوس برنارڈشا کے دروازے پر آیا اور احتجاج شروع کر دیا۔ اس پر برنارڈشا نے وضاحت کی ”میرا وہ مطلب نہ تھا جو تم لوگ سمجھ بیٹھے ہو دراصل سر ٹھنڈا رکھنے سے میری مراد تھی کہ میں کبھی غصہ نہیں کرتا اور پاؤں گرم رکھنے سے میرا مقصد یہ تھا کہ ہمیشہ پیدل چلتا ہوں اور یہی میری طویل العمری کا راز ہے۔ با ت مسکین کاکا کی طویل العمری کے بارے میں ہورہی تھی اور ان کی طویل العمری کی وجوہات یہ ہیں، نیچرسے قربت، سادہ خوراک، کھلی فضا میں رہائش، شہر کے ہنگاموں سے دور اور حرص وہوس سے آزاد، شعور کی گرفت سے ناآشنا، موازنہ اور مقابلہ کی زندگی سے ناواقف، شکر گزاری، عبادت گزاری، قناعت پسندی، دوسروں کے معاملات میں مداخلت سے گریزاں، غیبت اور چغلی خوری سے بیزاری، نتیجے کے طور پر نہ اعصاب پر دباؤ اور نہ ذہن پر بوجھ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو اس عمر میں بھی کوئی بلڈپریشر، شوگر اور دل کا عارضہ لاحق نہیں۔ بقول سندھو شاب ”تقریبا اپنی نسل کے یہ نایاب لوگ ہیں، ان کی سوچ، ان کے خدشات، ان کا مخصوص لباس، جلد ناپید ہوجائے گا۔ ان سے گزشتہ صدی کے سارے راز جان لو، خوشیاں کیسے منائی جاتی ہیں، غموں میں شریک کیسے ہوا جاتا ہے، ان سے سیکھو! ہم لاکھ دعوے کریں مگر صحیح معنوں میں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کئی نسلوں کا فاصلہ ماپا ہے۔ یہ لوگ کسی کم ہوتی نسل کے پرندوں کی طرح رخصت ہوتے جارہے ہیں۔ اپنی منفرد نوعیت کے یہ آخری لوگ ہیں۔ بلاشبہ مسکین کاکا اہالیان بحرین کیلئے ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی طویل العمری کی وجوہات کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔
ورق تمام ہوا مدعا باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کیلئے

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی