ظالمانہ فیصلہ

مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ کامودی سرکار کے 5اگست 2019ء کے اقدام کی توثیق عالمی قوانین اور انصاف کے تقاضوں کی کھلی پامالی ہے ۔ یہ فیصلہ قانونی سے زیادہ سیاسی ہے بھارت اس امر سے انکاری ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے اور بھارتی حکومت یا عدلیہ کو متنازع علاقے کی قانونی حیثیت کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ حریت کانفرنس کا کہنا ہے کہ کشمیری دفعہ370یا A35کے لئے نہیں لڑ رہے ہیں نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر پر بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ مکمل مسترد کرتا ہے اور مقبوضہ کشمیر پر بھارتی آئین کی بالادستی تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام آباد میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ مقبوضہ کشمیر بین الاقوامی طور ایک مسلمہ متنازع علاقہ ہے، بھارت کو مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کے تعین کا کوئی حق نہیں۔خود بھارت کے ماہرینِ قانون بھی تائید کرتے ہیں کہ اس فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔امر واقع یہ ہے کہ بھارت 1952ء کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے اگست 2019 میں مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ نئی دہلی کی جانب سے کی گئی بڑی ناانصافی کوانصاف کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے درست قرار دیا ہے۔ چار سال قبل بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی متعدد درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے، عدالت نے یہ حیرت انگیزاورغیرمتوقع فیصلہ دیا کہ آرٹیکل”ایک عبوری انتظام تھا” اور یہ کہ بی جے پی کی زیرقیادت حکومت کا متنازعہ علاقے کی محدود خود مختاری کو ختم کرنے کا مشکوک فیصلہ "انضمام کے عمل کی انتہا” تھا۔کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے ایک جج نے کہا کہ مقبوضہ علاقے میں حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے سچ اور مصالحتی کمیشن قائم کیا جانا چاہیے۔فاضل جج کو معلوم ہونا چاہیے کہ یکے بعد دیگرے بھارتی حکومتوں نے منظم طریقے سے کشمیری عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا ہے اور کوئی بھی اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ کشمیر کو مفتوحہ علاقہ سمجھنے والی انتظامیہ اپنے ہی فوجیوں کے ہاتھوں ہونے والی زیادتیوں پر سنجیدگی سے غور کرے گی۔درخواست گزاروں میں وہ فریق بھی شامل تھے جو ہمیشہ نئی دہلی کے ساتھ وفادار رہے ہیں۔ بھارتی ریاست نے ان کی ‘وفاداری’ کا صلہ مبینہ طور پر محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو فیصلے کے اعلان سے قبل گھر میں نظر بند کر کے دیا۔اس فیصلے سے اگلے سال ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کے ہندوتوا کے جوہر کو مزید تقویت ملنے کا امکان ہے، جبکہ یہ تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوشش بھی ہے۔ دنیا کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کرتی ہے، لیکن بھارت زمینی حقائق کو نئے سرے سے تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے ساتھ ہی آرٹیکل 370کی منسوخی نے بھارت کو مقبوضہ کشمیر کی آبادی کو تبدیل کرنے اور کشمیریوں کو ان کی آبائی سرزمین میں موثر طریقے سے اقلیت میں تبدیل کرنے کی اجازت دی ہے اور مودی سرکار کے فیصلے کے بعد سے ہی اس پر زور وشور سے عملدرآمد بھی ہو رہا ہے ہندوستانی وزیر داخلہ امیت شاہ نے حال ہی میں لوک سبھا کو بتایا کہ جواہر لعل نہرو کی غلطیوں”نے کشمیر کے حوالے سے نئی دہلی کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔جو انہوں نے 1947-48کی پاک بھارت جنگ کے دوران جنگ بندی کو قبول کرکے کی نیزانتہا پسندی میں بھارتی حکمران اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ تنازعہ کو اقوام متحدہ میں لے گئے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ غلطیاں نہ کی جاتیں تو آج آزاد کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا۔ اس سے بھارتی انتہا پسندقیادت کی بے انتہا انتہا پسندی کابخوبی اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ خود اپنے ہی قائدین کا فیصلہ اور اقدامات بھی درست نظر نہیں آتے اور وہ ان کوبھی مطعون کرتی ہے دوسری جانب عدالت کے فیصلے سے کشمیر پر بھارت کا قبضہ مضبوط ہو سکتا ہے لیکن یہ کشمیریوں کی آزادی اور وقار کی شدید خواہش کو نہیں دبا سکتا۔ کوئی بھی بھارتی قانونی مداخلت یا وحشیانہ طاقت کشمیریوں کو اپنے جائز حقوق مانگنے سے نہیں روک سکتی۔اگرچہ پاکستان نے بھارتی عدالت کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستانی قیادت مسئلہ کشمیر کو سفارتی طور پر عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں ناکام رہی ہے جس سے بھارت کی ڈھٹائی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری بھی تمام مسائل خاص طور پر امت مسلمہ اور مسلمانوں کے متعلق معاملات کو مساوی نہیں سمجھتی، جیسا کہ اس حقیقت سے ظاہر ہے کہ کشمیر اور فلسطین کے قبضے کو آسانی سے ایک طرف کر دیا گیا ہے، جب کہ یوکرین کے قبضے کو جمہوریت اور آمریت کے درمیان ایک وجودی جنگ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ان حالات سے کشمیری عوام کے پاس فلسطینیوں کی طرح بے سروسامانی کے باوجود مزاحمت اور لڑنے پرآمادگی ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے بعید نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں حماس کی کہانی دہرائی جائے۔

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟