عاشق کا دھرم

شاعر ہفت زبان حضرت خواجہ غلام فرید کہتے ہیں محبوب سے رخصت ہورہا ہوں تو جدائی کچوکے لگارہی ہے ایسا لگ رہاہے کہ سر پر درد و آلام کا بوجھ آن پڑا ہے۔ ہم نے وطن کی طرف رخ کرلیا ہے۔ یار کے کوچے سے جدائی کا دکھ صرف عاشق ہی سمجھ سکتا ہے۔ اس سے پریت لگائی ہے جس نے ڈگمگانے نہیں دیا۔ دل ہے کہ دیدار یار کو ترستا ہے، گھر، بازار اور شہر سے نہیں، عاشق کا کام محبوب سے ملاقات کے سفر کی سختیوں کو ہنس کر جھیل جانا ہے۔ غموں نے دل کو سخت کردیا، اس کے غم میں گھل گھل کر مروں گا۔ خون کے آنسو بہانا اور آہیں بھرنا اس سے بہتر ہے کہ یادِ یار کی مالا جپتا رہوں۔ خواجہ غلام فرید کا نام خورشید عالم تھا۔ حضرت بابا فرید شکر گنج کی ارادت میں غلام فرید ہوئے۔ تاریخ ولادت26 ذی الحجہ1261ہجری ہے۔ مرزا احمد اختر 26ذی قعدہ لکھتے ہیں لیکن شاہرین و محققین کی اکثریت 26ذی الحجہ پر ہی متفق ہے۔ انکے والد گرامی محبوب الہی خواجہ خدا بخش ، صاحب معرفت شخصیت تھے۔ خواجہ غلام فرید نے اردو، سرائیکی، سندھی، فارسی، عربی زبان میں شاعری کی انہیں شاعر ہفت زبان کہا لکھا گیا۔1901 میں وفات پائی۔ ان کے کلام کا مستند نسخہ دیوان فرید کے نام سے موجود ہے۔ دیوان فرید کو مختلف اوقات میں مرتب کیا گیا۔ سرائیکی زبان کے اس مجموعہ کلام کا ترجمہ و شرح لکھنے والوں میں بڑے بڑے صاحبان علم شامل ہیں۔ پچھلی صدی میں مولانا نور احمد خان فریدی مرحوم کا مرتب کردہ دیوان فرید اہل علم اور طلبا میں بہت مقبول ہوا۔ اس مقبولیت کی ایک وجہ سرائیکی اشعار کا آسان اردو ترجمہ اور شرح ہے مجاہد جتوئی نے بھی”دیوانِ فرید بالتحقیق ”مرتب کیا اس پر تنازعوں کی دھول اڑی لیکن کام بہت محنت سے کیا انہوں نے ۔ خواجہ وحدت الوجود کے علمبرداروں میں سے تھے۔ خواجہ غلام فرید کہتے ہیں عاشق کو وادی عشق میں کئی مراحل طے کرنا ہوتے ہیں۔ محبت کی قدر و قیمت عاشق ہی بتاسکتا ہے۔ ہمارا بوجھ دوستی اب تم ہی اٹھائو دوسرا کوئی نہیں تمہارے سوا۔ کبھی آئو ہماری آنکھوں کے اندھیرے چھٹیں اور دل کی دنیا آباد ہو۔ بندے کو زیبا نہیں کہ دوسرے کو برا بھلا کہے۔ سنبھل کر کلام کرنے میں وقار پوشیدہ ہے۔ عاشقوں کو لوگ دیوانہ بھی کہتے ہیں اور کچھ تو برا بھلا بھی۔ گاہے محبوب کا رویہ بھی سخت ہوتا ہے۔ ثابت قدمی پار لگاتی ہے۔ دل کا چور کب اپنا جرم مانتا ہے۔ ایک ہم ہیں کہ تمہاری تلاش میں شام و صبح میں امتیاز نہیں کرتے۔ ایک تم ہو کہ دیدار کرانے کی بجائے امتحان لیتے ہو۔ ان پر افسوس ہے جو دوستی کا عہد کریں اور بھول جائیں۔ دوست بھلانے کے لئے نہیں ہوتے۔ بلاوجہ کے شکوے طعنے شرمساری کے سوا کچھ نہیں دیتے۔ عشق کی راہ میں ہوئی مسافت میں ہڈیاں گرمی سے تپ جاتی ہیں۔ محبوب کو کوئی بتائے کہ تجھے دیکھے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ بھلے مانسوں کے ساتھ تو ہر کوئی گزارا کرلیتا ہے، کمال تو تب ہے کہ بدصورت کے ساتھ نباہ کیا جائے۔ ہم ہی عاشق تھے ہم ہی خریدار۔ میرے محبوب آنے میں تاخیر نہ کرنا، مستعار زندگی پر بھروسہ نہیں ہے۔ برائی کے بدلے میں اچھائی مناسب ہے برائی کے بد لے میں برائی ہو تو پھر فرق کیا رہ جائے گا۔ طلب میں برباد ہونے والے بھی تمامی سے سرفراز ہوتے ہیں۔ حالات کچھ بھی ہوں عقل کا دامن نہ چھوڑنا۔ شکر کا نغمہ الاپتے رہو یہ بھی خودشناسی کی ایک صورت ہے۔ جب سے تم جدا ہوئے ہو دکھوں نے آن گھیرا ہے۔ سکھ رخصت ہوئے ہم تو روز الست سے ہی ہجروفراق میں مبتلا ہیں۔ سینے میں چاہت کی برچھی لگی ہے دل میں غم جمع ہیں۔ عاشق کے لئے درد اور غم ہی مونس ہیں۔ افسوس کہ ہوا و ہوس کے پتلوں نے عشاق کی آبرو کو برباد کیا۔ نہ میں مرض ہوں، نہ مشرک ہوں، یہ ایک مشرب ہے رندانہ۔ میرا مسجود ہے پیرمغاں۔عاشق کا دھرم محبوب کے سوا کیا ہے۔ دیداریار کی حسرت میں ستم ہے۔ ویرانوں اور آبادیوں میں اسے ڈھونڈتے پھرے ۔ راہ سلوک کی خبر زاہدوں کو نہیں عاشقوں کو ہوتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تم انتظار کے دکھوں کا مداوا کردو۔ کبھی خود سے بچھڑ کر کائنات کو دیکھو پھر تخلیق کی وجہ سمجھ لو گے۔ سب عشاق لطف یار کے طالب ہیں۔ ایک میں ہوں کہ لطف کا نام سن کر کانپ اٹھتا ہوں۔ محبوب کا درد وہ دوا ہے جسے صرف میں جانتا ہوں۔عاشق تو ہمیشہ ملامت کا نشانہ بنتے رہے۔ اناالحق کہنے والے ہی منصور بنتے ہیں۔ جس نے نفس کی مانی وہ یار کی سن نہیں پاتا۔ جو یار کی سنتا ہے وہ نفس کا اسیر نہیں ہوتا۔ عاشق کی توجہ یار کے گھر کی جانب ہوتی ہے۔ جنم دن سے ہی دکھ ہمارے گلے کا ہار ہوگئے۔ دین و دھرم کی ہم سے پابندی نہیں ہوتی۔ ہم تو عشق کے غلام اور خادم ہیں۔ عشق نے فرید کو ایسے جلایا جیسے کوہ طور جلا تھا۔ گلے لگاکر مار بھگانا ٹھیک نہیں۔ جلوہ جاناں ہی ہر سو ہے۔ محبت کی ایک نگاہ سارے دکھوں کا مداوا ہے۔ عارف کو ہر چیز خالق کے وجود کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ دل میں تمہارے عشق کی گرمی ہے۔ تمہارا دیدار ہی موسم بدلے گا۔ ایثار سے بڑھ کر انسانیت اور کیا ہوگی۔ بانٹ کر کھانے میں جو لطف ہے وہ پیٹ بھرنے میں نہیں۔ اس سے محبت کا امتحان اس کی مخلوق سے محبت ہے۔ بندگی تجارت نہیں۔ دل کو امیدوں کا بازار بنانے سے گریز کرو۔ بھید کھولنے سے خاموشی اچھی ہے۔ دوسروں کی ٹوہ میں رہنے کی بجائے اپنی حقیقت کو تلاش کرو۔ وہ تو ازل سے ہے اور رہے گا۔ تم سوچو کہ حق ادا ہوا۔ محبوبِ ازل کے سوا سب فریب ہے۔ اپنے ہوں یا پرائے سب اسی کے مظاہر ہیں۔ فرید تو الطاف و کرم کی امید لئے ہوئے ہے۔ امیدیں ناامیدی میں بدل گئیں۔ ہر خوف سے نجات ملی۔ اب دلبر سے رازو نیاز نہ ہوں گے۔ اس کا جلوہ ہی ہر سو ہے۔ فنا کے بغیر بقا ممکن ہی نہیں۔ لوگ اپنی ذات سے غافل ہیں اور شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ خواجہ غلام فرید کہتے ہیں عشق کی مستی نے غم دنیا سے محفوظ کرلیا۔ حسن ازل کے جلوے سے دنیا منور ہے۔ آنکھوں والے ہی بینا ہوں ضروری نہیں۔ جمع کرنے سے تقسیم کرتے رہنا افضل ہے۔ اس کی یاد سے غافل ہوکر جینے میں نقصان ہی نقصان ہے۔ خواہش نفس پر قابو پانے میں ہی اصل راحت ہے۔ عشق کے بھید کو خود سے بھی چھپاکے رکھو۔ بداخلاقی کا ایک لمحہ عمر بھر کی ریاضت برباد کردیتا ہے۔ جو تیرے پاس نہیں اس کی حسرت نہ پال ۔ نعمتوں میں دوسروں کو شریک کرنے سے نعمتیں کم نہیں ہوتیں۔ جو تجھ سے پھرا وہ کسی کا نہ ہوا ۔

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد