عجائب گھر لائبریری

عجائب گھر لائبریری ‘ رشتہ اور پب جی

صوابی میں لائبریری کے قیام کے حوالے سے کالم کے جواب میں جہاں بہت حوصلہ افزاء پیغامات ملے وہاں ایک ایسا مشورہ بھی ملا جو پیغام دینے والے کی ذہنیت اور سوچ کا عکاس ہے ایک قاری نے پیغام دیا ہے کہ محترمہ صوابی کے محمد ابراہیم خلیل سے کہیں کہ اپنی لائبریری کو عجائب گھر کا نام دیں کیونکہ کتابیںاب میوزیم میں رکھی جائیں گی لائبریری میں نہیں۔ حرف مطبوعہ کی اہمیت اور پائیداری سے نابلد لوگ ہی اس طرح کی سوچ رکھ سکتے ہیں۔یا پھر یہ نوجوان قاری ہوں گے جنہیں حرف مطبوعہ کی اہمیت کا علم اور کتابوں سے شغف نہ ہوگا بہرحال میں شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ایک سوچ کا اظہار کیا ہرکسی کی سوچ مختلف ہو سکتی ہے یہ قاری عین ممکن ہے انٹرنیٹ سے اخبارات ‘ رسائل اور کتابیں پڑھنے کا عادی ہو گا وہ بھی تو کتابی مواد ہی ہوتا ہے بس ہیئت مختلف ہے مواد خواہ جس ہیئت میں ہو اچھا اور معیاری ہو تو پڑھنے میں لطف آتا ہے کتابوں سے نہ پڑھیں نیٹ سے پڑھیں ٹیکنالوجی سے استفادہ کریں اور اگر کبھی موقع ملے تو پڑھنے کے لئے چند کتابیں میز پر رکھیں ورق گردانی کریں یقین جانیں وقت کا ضیاع نہ ہوگا ۔ ایک مہربان قاری نے قریبی رشتوں سے بے جا مطالبات کرنا رشتوں کو کتنا خراب کرتا ہے کے موضوع پر چھوٹا سا مذاکراتی مواد شیئر کرتے ہوئے اس پر لکھنے کا کہا ہے ہمارے ہاں کی شادی بیاہ کی رسومات ہی تبدیل نہیں ہوئی ہیں بلکہ شادی گھر کا ماحول اور انتظامات رخصتی اور رشتہ داری کے قیام کے حالات و عوامل میں بھی یکسر تبدیلی آئی ہے خاص طور پر شہروں میں صورتحال خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے والا ہو گیا ہے ۔ پہلے پہل گھرمیں رونق لگتی تھی رشتہ دار اکٹھے ہوتے تھے رشتہ کا قیام اس کے لئے تگ و دو اور وہاں بات پکی منگنی نکاح رخصتی سبھی ایک مشترکہ خاندانی فریضہ سمجھا جاتا تھا ۔ آج کل لڑکا لڑکی خود ہی فیصلہ کرکے گھر والوں کوآگاہ کرنے کا رواج چل نکلا ہے جس میں کم ہی علاقوں اور جگہوں کا معاشرہ محفوظ ہو گا یقینا لڑکا لڑکی کو پورا پورا حق ضرور ہے اپنی زندگی کے فیصلے کا لیکن اس میں دھوکہ فریب ‘ لالچ اور بگاڑ کو بھی بھگتنا پڑتا ہے بہرحال موضوع بے جا مطالبات اور فرمائشیں تھیں اس مادی دور سے اور کیا توقع وابستہ کی جائے جہاں شرائط اور کڑی شرائط کے ساتھ رشتے ہوئے ہیں تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ ایسا لڑکی کے تحفظ کے لئے ضرور ہوتا ہے مگر رشتے کی بنیاد پہلے ہی دن دیمک زدہ ہو جاتی ہے اور بالاخر بداعتمادی ظاہر ہونے لگتی ہے یہ ایک ایسا پیچیدہ موضوع ہے کہ کوئی طے شدہ فارمولہ نہیں شرائط عائد کرنے کی وجوہ بھی ثقہ ہیں اور بلا شرط توکل کرنا بھی احسن رہتا ہے میں تو بس یہ کہوں گی کہ تمام معاملات ابتداء سے رشتہ سے نکاح و رخصتی تک اسلام اور شریعت کی پیروی بابرکت ہوتی ہے رشتہ داری کو گنجلک ‘ پیچیدہ اور مشکل بنانے سے گریز کیا جائے دونوں طرف سے خلوص ‘ اعتماد ہواور لالچ کا عمل دخل نہ ہو تو رشتہ بھی مضبوط اور پیچیدگیوں کا باعث نہ ہو گا بلاوجہ کی شرائط پسندیدہ نہیں توکل کی جائے تو اچھا ہو گا ویسے اس طرح کے معاملات میں توکل ہی کرنا پڑتا ہے دیکھا جائے تو شادی ایک رسک والا کام ہے جس میں ففٹی ففٹی کا عنصر ہوتا ہے چلتی بھی ہے ‘ کامیاب بھی ہو تی ہے بلکہ اکثر کامیاب ہوتی ہے اور ٹوٹتی بھی ہے کوشش ہونی چاہئے کہ ایک دوسرے کی سنی سمجھی جائے اور بلاوجہ کی پیچیدگیوں کے ساتھ دو ذی روح کو رشتے سے نہ باندھ دیا جائے تو بہتر ہو گا حسب ضرورت اور حسب استطاعت ایک دوسرے کی ضروریات و خواہشات کا خیال رکھا جائے تو مضائقہ نہیں لیکن شرائط اور منہ مانگا جہیز کی بالکل ہی طلب نہیں کرنی چاہئے ۔بچیاں اپنا فیصلہ خود ہی ضرور کریں اگر والدین سے مشاورت اور رہنمائی سے کریں گی تو اس میں انہی کا فائدہ ہے بصورت دیگر عمر بھر اکیلے ہی بھگتنا بھی پڑ سکتا ہے ابتداء ہی میں وعدے ناتے ادھورے بھی رہ جاتے ہیں اس طرح کی صورتحال میں بغیرپچھتاوے کا سامنا اکیلا کرنا پڑتا ہے وہ بہت خوفناک ہوتا ہے سوچئے ‘ سمجھئے ‘ پرکھئے اور اندھا اعتماد کرنے سے گریز کیجئے ۔ ایک اور قاری نے پب جی گیم پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ نوجوان اس گیم کی لت کا شکار ہو کر کام سے ہی نہیں جاتے بلکہ قتل جیسے گھنائونے فعل کے مرتکب بھی ہونے لگے ہیں درست بات ہے اس طرح کے واقعات اب کوئی پوشیدہ بات نہیں میں تو کہتی ہوں کہ ٹک ٹاک بھی بند ہونی چاہئے انٹر نیٹ کے استعمال کی حدود و قیود کے لئے کچھ ہونا چاہئے اس کے مثبت استعمال کی اہمیت سے انکار کسے ہے لیکن اس کا منفی استعمال بھی کچھ کم نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی ہونے لگا ہے منفی قسم کے مواد اور قابل اعتراض ویب سائیٹس پر قدغن لگا کر اس پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے والدین بچوں کو روکتے روکتے نہال ہو جاتے ہیں ایسا کم ہی ہے وگر نہ آج کل بڑی بوڑھیاں ہوں یا لڑکیاں ‘ بابے ہوں یا لڑکے سبھی کا من مشغلہ موبائل فون سے دل بہلانا بن چکا ہے موبائل فون نہ ہوا شیطان کا آلہ ہوا جسے جو پسند و مرغوب ہو بٹن دبانے پر لاپیش کردیا ایسا شیطانی آلہ کہ ایک بار ہاتھ لگے تو چھٹتی نہیں یہ کافر منہ کو لگی ہوئی بن کر رہ جاتا ہے خود پر قابو پانا مشکل کر دیتا ہے معلوم نہیں اس کی تباہ کاریوں سے لوگوں کوکیسے بچایا جائے ایسی توبہ شکن آلہ ہاتھ لگا ہے کہ دجال کے فتنوں کو پیچھے چھوڑ گیا ہے یہ تو برسبیل تذکرہ ہی خیال آیا ورنہ مجھے تو یہ دجال کا ہی مدد گار آلہ لگتا ہے جس سے بچائو بہت ہی مشکل ہے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس کے استعمال میں اعتدال کاراستہ اپنائے ہوئے ہیں اور اس کا مثبت استعمال کرتے ہیں پب جی جیسے خطرناک گیمز اور ٹک ٹاک جیسی واہیات ایپ ہی نہیں یہاں اور بھی بہت کچھ ہے جس سے بچ کر رہنا واقعی کمال کی بات ہو گی کوشش کیجئے کہ خود کو بچائیں خود اجتناب کرکے ہی بچوں کو روکا جا سکتا ہے آپ موبائل میں گم رہیں تو بچے تو پھر نا سمجھ اور بچے ہوتے ہیں۔
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں