عزم صمیم

قومی سلامتی کے ان کیمرہ سیشن سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا دہشت گردوں کے لیے ریاست کی رٹ کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ملک میں دائمی قیام امن کے لیے سکیورٹی فورسز مستعد ہیں، اس سلسلے میں روزانہ کی بنیاد پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن جاری ہیں۔ عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں، پاک فوج پاکستان کی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔آرمی چیف جنرل عاضم منیر کے بیان سے عوام پارلیمان اور آئین کی بالادستی کا تاثر ضرور ملتا ہے لیکن یہ یقین دہانی یا ان خیالات کا اظہار ایک خاص وقت میں خاص فورم پر کرنے کو سیاسی عناصر اپنی مرضی کے معانی پہنا سکتے ہیں پاکستان میں مسئلہ ہی طاقت کا مرکز عوام کے ہونے کے حوالے سے مسائل کا ہے عوام کی چھینی گئی یہ طاقت عوام کو واپس مل جائے اور عوام کی امنگوں کے مطابق قیادت سامنے آئے اس کے بعد ہی ملک میں عوامی احتساب کی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں ایسا ہونے پر ہی سیاسی جماعتیں بھی عوام کو وہ مرتبہ اور وقعت دیں گی جو عوامی راج اور جمہوریت کا تقاضا ہے یہ تو برسبیل تذکرہ ہے آرمی چیف نے قومی سلامتی کمیٹی میں فیصلے کے بعد دہشت گردی بلکہ دہشت گردوں کے بچے کچے ٹکڑوںکا مکمل طور پر صفایا کرنے کے جس عزم کا اظہار کیا ہے وہ قابل اطمینان ہے اور اس مہم میں یقینا پوری قوم پاک فوج کی پشت پر کھڑی ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد سے ملک کو دہشت گردی کی جس غفریت کا سامناہے اس کا جس پامردی سے مقابلہ کیا گیا وہ کوئی پوشیدہ امر نہیں مشکل امر یہ ہے کہ غیر مرئی دشمن اس کے باوجود کسی نہ کسی طرح اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے اور آئے روز اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں اس بارے دورائے نہیں کہ پاک فوج اور ساتھ ساتھ پولیس دونوں اس صورتحال سے نمٹنے میں ہر بار مستعد پائے گئے چھپ کر وار اور اچانک کسی جگہ دہشت گردی کرنے کے واقعات کا تقاضا ہے کہ ایک مرتبہ پھر تطہیری مہم اس انداز سے شروع کی جائے کہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے اور کوئی بھی کمیں گاہ باقی نہ رہے نیز جن لوگوں کی وساطت اور مدد سے یہ عناصر حملہ آور ہوتے ہیں ان مددگاروں کی بھی چھان بین ہومناسب ہوتا کہ اس موقع پر نیشنل ا یکشن پلان پر اتفاق کے باوجود اس کے سارے نکات پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجوہات کا بھی جائزہ لیا جاتا اور اس کی تکمیل پر توجہ دی جاتی بہرحال اب بھی اس کے تمام نکات پرعملدرآمد یقینی بنانے پرتوجہ کی ضرورت ہے اس ضمن میں عوام کا تعاون اور کردار خاص طور پر اس لئے اہم ہے کہ مشکوک عناصر کی نشاندہی کی ذمہ داری پور کی جائے۔ جہاں تک پاک فوج ‘حساس اداروں اور دیگر حفاظتی ذمہ داریاں نبھانے والے محکموں کا تعلق ہے بلاشبہ اس جنگ کولڑنے کے سوائی کوئی آپشن نہیں ہے بلکہ جنگ کوجیتنے کے علاوہ بھی کوئی اور چارہ کار موجود نہیں یقینا دیر یا بدیر ان دہشت گردوں کا صفایا ہونا ہے اور جیت پاکستانی عوام ہی کی ہونی ہے۔صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ پاک فوج کے ساتھ ساتھ ضم اضلاع میں بالخصوص ان عناصر سے نمٹنے کی ذمہ داری انجام دینے والے محکموں اور اہلکاروں کی استعداد و طاقت میں اضافہ اور ان کومزید فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد بڑھانے کے حوالے سے حکومتی سطح پرجن اقدامات اور سہولیات کی فراہمی کی ضرورت ہے دہشت گردوں کے پاس جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی کی موجودگی سب سے بڑا چیلنج ہے اس صورتحال نے ان کی فعالیت میں اضافہ اور دفاعی اداروں کی مشکلات بڑھا دی ہیںاس مشکل کا مقابلہ اور ان کی صلاحیت کا خاتمہ کرکے تمام علاقوں کو پاک کرکے ہی کامیابی ممکن ہو گی۔ امید واثق ہے کہ اس پر جلدسے جلد توجہ دی جائے گی اور آنے والے دنوں میں دہشت گردی کو شکست دینے والے عوامل میں اضافہ کے اثرات سامنے آنا شروع بھی ہوجائیں گے۔ نائن الیون کے بعد کے واقعات میں قومی سطح پر اتحاد و اتفاق کی جو مثالی صورتحال تھی بدقسمتی سے ان دنوں وہ نظر نہیں آتی سیاسی معاملات کے باعث قوم منقسم اور باہم دست و گربیاں ہے اس سے بھی بڑی بدقسمتی ان اداروں پر انگشت نمائی ہے جو ڈھال بن کر ہمیں تحفظ دے رہے ہیں۔اس کی کئی جہتیں ہیں جو اس امرکا متقاضی ہے کہ ہم سب مل کر اپنا کردار ادا کریں اور اپنے کردار کو پہچانیں اور اپنی ذمہ داری سمجھ کر اسے قومی جذبے سے ادا کریں ہم سب کو اپنے اپنے محاذ پر کامیابی سے لڑنا اور آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں دہشت گردی کو نہ صرف جنگی محاذ پر ہی شکست دینا ہوگی بلکہ بحیثیت ریاست اورمعاشرہ تعلیم ‘صحت ‘امن عامہ اور معاشی خوشحالی کے معیار کے حصول کیلئے بھی پوری طرح کوشاں رہنا ہوگا اور ان عوامل کو یقینی بنانا ہوگا جس کے نتیجے میں بہتر اور پرامن معاشرہ قائم ہو ہم نے فرد معاشرے اور زندگی کے نئے روابط کو وجود میں لانا اور عملی طور پر ممکن بنانا ہوگا۔ پاکستان ہم سب کے بہترتخیل اور جہد مسلسل کا منتظر ہے اور قومی فرض پکار پکار کراپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادائیگی کا متقاضی ہے۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام