عظیم آباد میں منتظرساون کے بیٹھے ہیں

ہم سمجھ رہے تھے یہ شاید ہمارا ہی مسئلہ ہے ‘ وہی یعنی برصغیر کے بیشتر علاقوں خصوصاً پنجاب اور اس سے آگے جاتے ہوئے موجودہ بھارت کے کئی حصوں میں اس موسم کو ساون کہتے ہیں اور اس حوالے سے نہ صرف اردو شاعری کا دامن بھرا ہوا ہے بلکہ مختلف علاقوں کی مقامی زبانوں میں بھی قدیم زمانے سے چلی آنے والی شاعری اس موسم کا سواگت کرتی دکھائی دیتی ہے ‘ البتہ یہاں ہم جس خطے میں رہتے ہیں اس کا بیشتر حصہ ساون کی رنگا رنگی سے محروم ہے ‘ خصوصاً وادی پشاور اور کچھ ملحقہ علاقوں میں تو اسے عمومی لفظ ساون کی بجائے ”پشکال” پکارا جاتا ہے کہ ایک جانب چراٹ اور دوسری جانب تاترہ(جسے یار لوگ غلطی سے تاتارا اس لئے کہتے ہیں کہ انگریزی میں اس کے ہجے واپس ترجمہ کریں تو ”عقلمند” تاترہ کو تاتارا بنا دیتے ہیں) کے پہاڑی سلسلے ساون کے مہینے میں آنے والی ”گابھن” بادلوں کو روک دیتے ہیں اور جہاں محکمہ موسمیات والے خلیج بنگال میں بننے والے بادلوں کے سلسلے آنے کی اطلاعات نشر کرکے ہمیں بھی آس دلا دیتے ہیں کہ شاید کوئی نہ کوئی چھینٹا ہماری قسمت میں بھی بھولے بھٹکے سے خوشی اور سرشاری بھر دے ‘ کبھی کبھی ایسا ہو بھی جاتا ہے جیسا کہ ابھی ڈیڑھ ہفتے پہلے اللہ کا کرم ہوگیا تھا اور پشاور کے مختلف حصوں میں کہیں کم ‘ کہیں زیادہ اور کہیں بس ہلکی بوندا باندی نے سماں باندھ دیا تھا ‘ تاہم عمومی طور پر ہم اہل پشاور کی حالت نواب مرزا داغ دہلوی جیسی ہی ہوتی ہے جنہوں نے کیا خوب کہا تھا کہ
ذرا چھینٹا پڑے تو داغ کلکتہ نکل جائیں
عظیم آباد میں ہم منتظر ساون کے بیٹھے ہیں
یہ الگ بات ہے کہ موجودہ مہنگائی اور بے روزگاری نے یار لوگوں کو گھر سے نکل کر کسی ٹھنڈے مقام پر جانے کی خواہش سے بھی محروم کر دیا ہے ‘ ایک جانب شدید گرمی اوپر سے اورمستزاد یہ کہ بجلی کی بے پناہ لوڈ شیڈنگ اور ٹرپنگ ‘ جس کی وضاحت آج ہی کی تازہ خبر نے کر دی ہے ‘ جس کی تین کالمی سرخی نے ہمیں چونکا دیا ہے کہ خیبر پختونخوا کو ضرورت سے کم بجلی فراہم ہونے کا انکشاف ‘ذیلی سرخی یہ ہے کہ صوبہ کی بجلی کی ضرورت 2893 میگا واٹ ہے ‘ واپڈا خیبر پختونخوا کو 1571میگا واٹ بجلی فراہم کر رہا ہے ‘ ایسے میں ساون کی برستی بارشیں ہی واحد سہارا بن جاتی ہیں اور ساتھ ہی یہ دعا بھی ضروری قرار پاتی ہے کہ جہاں جہاں ساون اٹھکیلیاں کر رہا ہے وہاں وہاں اب لوگ سلامتی کی دعائیں بھی مانگ رہے ہیں یعنی ابھی حالیہ دنوں میں پنجاب کے مختلف شہروں میں بارشوں نے جوتباہی مچائی اور کراچی میں تو لوگوں نے ازراہ تفنن سڑکوں پر کشتی رانی تک کے مناظر سوشل میڈیا پر ڈال کر حکومتی کارکردگی کا بھانڈہ پھوڑ کر رکھ دیا ‘ لاہور میں تو زیر زمین ٹینک بنائے سے ماضی میں ہر طرف پانی کھڑا ہونے سے نجات تو حاصل کر لی گئی ہے البتہ کراچی میں صورتحال بالکل مختلف ہے اور وہاں سابقہ ادوار میں (کراچی میٹروپولٹین) کی مہربانی سے نکاسی آب کے راستوں پر غیر قانونی تعمیرات کی وجہ سے نہ صرف ہر طرف گندگی کے ڈھیر حکومت کا منہ چڑا رہے ہیں بلکہ پانی بھی سڑکوں اور گلیوں میں کھڑا ہوجاتا ہے ‘ کچھ ایسی ہی صورتحال دیگر کئی شہروں کا بھی ہے جبکہ پشاور بھی ان سے پیچھے نہیں ہے اور کبھی کبھار غلطی سے جو دو چار چھینٹے کہیں سے نکل آتے ہیں اور اپنی جولانی طبع کا اظہار کردیتے ہیں تو یہاں بھی سڑکیں پانی میں ڈوب جاتی ہیں نکاسی آب کا نظام بری طرح متاثر ہوجاتا ہے ابھی چند روز پہلے جو جل تھل ہوئی تھی تو سورے پل کے آر پار پانی ہی پانی تھا ‘ دیگر علاقوں میں بھی نالے ابل پڑے تھے کیا کیا جائے کہ یہ جو ایک عرصے سے پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی کے اقدامات کئے جاتے ہیں ان کو متعلقہ کارخانے دار عدالتوں کی مہربانی سے جوتے کی نوک پر رکھ کر دن رات کارخانے چلا کر پہلے سے بھی زیادہ مقدار میں ان تھیلوں کی تیاری شروع کردیتے ہیں ‘ انہیں صرف اور صرف اپنے منافع سے غرض ہے ‘ شہروں میں آلودگی پھیلانے سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے ‘ اس ضمن میں تحفظ ماحولیات ایکٹ کو جس طرح ”کھلونا” بنا کر رکھ دیا گیا ہے ‘ اس کے نفاذ کے لئے مزید چھ ماہ کی مہلت دینے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم اس مسئلے کے حل کے لئے کتنے سنجیدہ ہیں ۔ ہمدم دیرینہ یوسف عزیز زاہد کا شعر یاد آگیا ہے کہ
بے نطق ہوگیا ہے ہر آواز کا بدن
اک بدنصیب شہر نے گوہاٹی بیچ دی
ساون کا ذکر کرتے کرتے نہ جانے ہم کہاں کہاں سے ہو آئے ہیں ہم تو پشاور کی شدید گرمی اور ساون کے بیچ ”رشتہ” تلاش کر رہے تھے ۔ اس پر ایک ٹویٹ میں امریکی ریاست ڈیلاس سے کسی شخص کی فریاد سامنے آئی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ ڈیلاس میں آج کل دھواں دھار گرمی پڑ رہی ہے مہینے سے زیادہ ہو گیا ہے کہ درجہ حرارت مسلسل 100 فارن ہائیٹ یعنی 40 سینٹی گریڈ کے لگ بھگ ہے اس سے ایک روز پہلے ایک اور ٹویٹ بھی لگ بھگ اسی نوعیت کی سامنے آئی تھی کہ ان دنوں امریکہ کے کئی علاقوں میں گرمی کی شدت میں اضافہ لوگوں کی پریشانی کا باعث ہے ‘ اس پر ایک پاکستانی نے دوستوں کی محفل میں جب یہ کہا کہ بھائی ہم تو پاکستان میں 45 ڈگری سینٹی گریڈ میں بھی کرکٹ کھیلا کرتے تھے تو ان کے امریکی دوستوں کے چہروں پر بے یقینی کے سائے جھلملانے لگ گئے تھے یعنی وہ اعتبار کرنے کو تیار ہی نہیں تھے ‘ اب ان امریکی مہاپرشوں کو کیا معلوم کہ گرمی کے عروج میں تھر اور چولستان میں درجہ حرارت50 سے بھی اوپر چلا جاتا ہے کبھی وہ زحمت کرکے پاکستان کے موسم کے چارٹ پر نظر ڈالیں تو انہیں لگ پتہ چلے اوپر سے چولستان اور صحرائے تھر میں بارشوں کا نہ ہونا وہاں انسانوں اور جانوروں کے ساتھ زندگی کے رشتے کو منقطع کرنے کا باعث بن جاتا ہے ‘ ہر طرف جانوروں کی لاشوں کے اوپر گدھ منڈلاتے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ایسے میں ساون کی صورتحال جو گل کھلاتی ہے اور حلقوم سے باہر نکلتی ہوئی زبانیں رب کائنات کے حضور جس قسم کی دعائیں مانگتی ہیں اس کا احساس ان حالات سے دو چار لوگوں کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔ ایسی صورتحال میں وہ ہزاروں گیت جو کئی پیڑیوں سے سینہ بہ سینہ سفر کرتے رہے ہیں وہ بھی لوگ بھول جاتے ہیں اور کوئی ناری اپنے ساجن سے ملنے کی دعا بھی یاد رکھنے سے قاصر ہوتی ہے ۔
برہن اپنے ساجن کو کیسے بلوائے دیس
اب کے برس تو ساون کے چھا گل بھی خالی خالی

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات