5 280

عقیدت مندوں اور تجزیئہ نگاروں کے لشکر

جاتی امرا کے میڈیا منیجروں کا المیہ یہ ہے کہ وہ سول سپرمیسی سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں۔ ان کا من جملہ مؤقف یہ ہے کہ پیپلزپارٹی داؤ پر کھڑی ہے۔ وزرا، مشیر اور ترجمان جاتی امرا کے تجزیہ نگاروں کی ہوائیوں سے رزق پاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اے آر ڈی کے قیام کے بعد دس سالہ معاہدہ جلاوطنی پیپلزپارٹی نے کیا تھا؟ سیاست آگے بڑھتی ہے۔ غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں، نوازشریف تاثر دیتے ہیں کہ انہوں نے سبق سیکھا، اب ماضی کو نہیں دہرائیں گے، ان کے عقیدت مندوں کا لشکر لیکن تلواریں نیاموں میں ڈالنے پر آمادہ نہیں۔ یہ بجا ہے کہ ظاہری طور پر پنجاب کی قیادت پہلی بار ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہی ہے، اس کے باوجود میاں برادران میں سے بڑے میاں صاحب انقلابی لیڈر کا علم بلند کئے ہوئے ہیں جبکہ چھوٹے میاں صاحب اب بھی مفاہمت کی سیاست کے علمبردار کے طور پر پیش کئے جا رہے ہیں، مریم نواز جارحانہ انداز میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ میں نے ظاہری طور پر اس لئے کہا کہ پچھلے دو دنوں(جمعہ اور ہفتہ) کے دوران اسلام آباد سے جاتی امرا کے مکینوں سے رابطہ کیا گیا۔ کیا جاتی امرا کے مورچہ بند عقیدت مند ان رابطوں پر روشنی ڈالیں گے کہ رابطہ کاروں اور مریم نواز کے درمیان کیا گفتگو ہوئی یا پھر خود مریم نواز ہی بتا دیں کہ ان سے کیا کہا گیا اور انہوں نے کیا جواب دیا؟ ہم اصل میں اپنی پسند کے لوگوں کو فرشتہ بناکر پیش کرتے ہیں اور ناپسندیدہ کو شیطان۔ یہ فرشتوں اور شیطان والا معاملہ نہیں ایک طرف ریاست ہے اور دوسری طری پی ڈی ایم کے سیاستدان، دونوں پاکستانی ہیں، اگر رابطے ہوتے ہیں تو قیامت ٹوٹتی ہے نہ کوئی خلاف شرح کام ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ شریف خاندان اور ریاست کے درمیان براہ راست اور واسطوں سے ہونے والے رابطوں سے توجہ ہٹانے کیلئے عقیدت مندوں کا ہجوم اپنی اپنی کہانیاں بیچنے میں مصروف ہے۔ چاٹ مصالے والی ان کہانیوں کا مقصد وسطی پنجاب کے عوام کو یہ باور کروانا ہے کہ شریف خاندان تو ثابت قدمی کیساتھ کھڑا ہے لیکن پیپلزپارٹی کا کچھ پتہ نہیں۔ یہ ویسی ہی صورتحال ہے جو نوازشریف کے دس سالہ معاہدہ جلاوطنی اور پھر میثاق جمہوریت میں پی سی او ججز کے حوالے سے لکھی شق سے نون لیگ کے انحراف کے باوجود عقیدت مندوں اور تجزیہ نگاروں کا ہجوم بناتا رہا۔ حالانکہ بنیادی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی یہ حقیقت سمجھنے کو تیار نہیں کہ پیپلزپارٹی کیلئے بدگمانیاں اور نفرتیں پیدا کرنے سے مسائل بڑھیں گے۔ خود نون لیگ کو بھی یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ تند وتیز بیانات اور جارحانہ حکمت عملی واقعتا سول سپرمیسی کیلئے اپنائے ہوئے ہے یا پھر مریم نواز اور شہباز شریف کیلئے نوازشریف جیسی سہولت کے حصول کیلئے۔ اپنی معلومات کی بنا پر یہ عرض کرسکتا ہوں کہ میاں شہباز شریف کسی بھی طرح کے پانچ سالہ انتظامات کا حصہ بننے پر آمادہ تھے لیکن ان کے بڑے بھائی اور بھتیجی مریم نواز نے اس کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔ محض جوابی کردارکشی مقصود ہو تو آسانی کیساتھ یہ لکھا جا سکتا ہے کہ شہباز شریف کی حالیہ گرفتاری فرمائشی ہے کیونکہ وہ اپنی بھتیجی کی جارحانہ سیاست کے حامی نہیں، لیکن جاتی امرا کے ترجمانوں کا سا چلن غیرمناسب ہوگا۔ پی ڈی ایم کے فیصلے سب کے سامنے ہیں، نون لیگ بھی ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش مند تھی چند دن قبل نون لیگ کی سنٹرل کمیٹی کے اجلاس کے بعد گرفتار ہونے والے خواجہ محمد آصف نے گرفتاری سے قبل سنٹرل کمیٹی کے اجلاس ہر دو امور پر دوٹوک انداز میں اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے ایم آر ڈی کی جانب سے 1985کے غیرجماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کو بطور مثال پیش کرکے کہا تھا کہ اداروں سے مکمل باہر ہو جانے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ حکومت وقت مزید طاقتور ہوکر ایسے فیصلے کرے گی جس سے ہمیں نقصان ہوگا۔ ثانیا یہ کہ نون لیگ کی مجلس عاملہ میں70فیصد ارکان ضمنی انتخابات میں حصہ لینے، سینیٹ انتخابات کا میدان کھلا چھوڑنے کیساتھ ساتھ استعفوں کے معاملے پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے رہے۔ چند ارکان نے تو یہاں تک کہا کہ ہم مولانا فضل الرحمن کی اطاعت کے حامی نہیں اتحاد کو فیصلے سربراہی اجلاس میں کرنے چاہئیں۔ جاتی امرا والوں کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ تنخواہ حلال کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں جتے ہوئے ہیں لیکن یہ عقیدت مندوں اور تجزیہ نگاروں کو کون سا شوق چین نہیں لینے دیتا۔ فقیر راحموں کہتے ہیں اخبار نویسوں کو چاہیے کہ وہ اپنی پسند وناپسند ضرور رکھیں انسان ہیں فرشتے نہیں لیکن معروضی حالات کے تقاضوں اور سیاسی اتحاد کی ضرورتوں اور مطلوبہ فضا کا بہرطور خیال رکھیں۔ بات تو فقیر راحموں کی درست ہے لیکن یہاں ہر شخص اپنا مرغا بغل میں دابے اپنا ساڑ نکال رہا ہے مثال کے طور پر وائسرائے آف سرائیکی وسیب کہلانے والے ایک صاحب چند برس ادھر ایوان صدر کی ایک نشست میں اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری کے ہاتھوں اپنی دھلائی کا غم سینے پر لئے پھرتے ہیں اور جب کہیں موقع ملتا ہے ڈنگ مارنے سے باز نہیں آتے۔

مزید پڑھیں:  وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں