عمل کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جاپان اور سنگاپور میں کرپشن پر پکڑے جانے پر لوگ خودکشی کر لیتے ہیں جبکہ یہاں ان پر پھول پھینکے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ پاکستانی اور مغربی کلچر کو دیکھ چکے ہیں اور سیاست میں آنے کے بعد سسٹم دیکھا تو انہیں احساس کہ ہم کرپشن کو قبول کر بیٹھے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ اس صورت حال کا مقابلہ معاشرہ کرے گا، حکومت نہیں کر سکتی۔وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں جن امور کے حوالے سے بات کی ہے ان سے سرمو اختلاف کی گنجائش نہیں لیکن کیایہ بہتر امر نہ ہو گا کہ اس حوالے سے خود اس امر کا جائزہ لیا جائے کہ خود وزیر اعظم نے ان سارے معاملات کی تطہیر میں کتنا حصہ ڈالا۔ وزیراعظم سیاست اور عہدوں میں کرپشن کے سخت ناقد رہے ہیں لیکن حصول اقتدار سے لے کر حکومت چلانے اور اب حکومت بچانے کے سارے عمل میں وہی کردار اہمیت کے حامل نظر آتے ہیںجو وزیر اعظم کے خیالات اور فارمولے پر پورا نہیں اترتے ماضی میں تو وزیر اعظم ان تمام لوگوں کا باقاعدہ نہ صرف نام لے چکے ہیں بلکہ ان کو خطابات سے نوازتے بھی رہے ہیںایسے ہی افراد سیاسی ضرورت بن کر حکومت اور سیاست دونوں پر پوری طرح اثر انداز ہوتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود وزیر اعظم نے اپنے دور حکومت میں اس حوالے سے عملی طور پر کیا اقدامات کئے اگرصورتحال کا مقابلہ حکومت نہیں معاشرہ ہی نے کرنا ہے تو پھرمعاشرتی اصلاح کے لئے حکومت نے کیا اقدامات اٹھائے وہ بھی کوئی حوصلہ افزاء صورت میں دکھائی نہیں دیتے۔ وزیر اعظم کے اس خطاب سے پورا ملکی نظام ہی کٹہرے میں کھڑا نظر آتا ہے جس سے قطع نظر یہ بات بہرحال اہمیت کی حامل ہے کہ معاشرتی تطہیر اور معاشرے کو خود اپنے اصلاح کا راستہ اختیار کرنا چاہئے جس کی بہتر صورت جہاں انفرادی طور پراپنی ذمہ داریوں کو ایماندارانہ انداز میںادا کرنا ہے وہاں اس سے بڑھ کر اجتماعی کردار و عمل کے اصلاح کی زیادہ ضرورت ہے جس کے بغیر فیصلہ کن اور اثر انداز ہونے کاحامل ہونا ممکن نہیں ایسے میں آئندہ عام انتخابات میں اب تک کی سیاسی جماعتوں اور کرداروں کو مسترد کرکے ایسے افراد کے چنائو کی ضرورت ہو گی جودیانتدار اورمخلص ہوں۔
سستی توانائی کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ کیوں؟
جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ کے باعث پاکستان میں تیزی سے بڑھتا ہوا متبادل توانائی کے شعبے کی مشکلات کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیںواضح رہے کہ پاکستان میں گذشتہ چند برسوں کے دوران توانائی کے بحران اور مہنگی بجلی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے صارفین میں سولر پینلز لگانے کا رجحان تیزی سے بڑھا تھا اور گذشتہ مالی سال کے دوران2380میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل سولر پینلز درآمد کیے گئے تھے۔تاہم رواں سال جنوری میں منی بجٹ کے ذریعے سولر سسٹم کی درآمد پر بھی17فیصد ڈیوٹی عائد کردی گئی تھی، اس کے علاوہ تین فیصد اضافی جی ایس ٹی بھی لگایا گیا جس سے عام گھریلو سولر سسٹم کی لاگت میں دو سے چار لاکھ روپے تک کا اضافہ ہوگیا۔حکومتی اقدامات سے پاکستان کا 2030 تک متبادل توانائی کا شیئر30فیصد تک پہنچانے کا اپنا ہی ہدف ناممکن ہوجائے گا۔یاد رہے کہ برسراقتدار آنے کے بعد موجودہ حکومت نے متبادل توانائی کو فروغ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2025تک متبادل توانائی کے منصوبوں سے بجلی کی پیداوار کو20اور2030تک 30 فیصد کر دیا جائے گا۔بجلی جس طرح ناپید اور مہنگی ہوتی جارہی ہے ایسے میں لوگوں کے پاس متبادل توانائی کے ذرائع ہی کی طرف جانا مجبوری ہے جبکہ یہ خود حکومت کی پالیسی رہی ہے لیکن بجائے اس کے کہ سولر سسٹم لگوانے کے لئے عوام کو مراعات اور بلا سودی قرضے دے کر اس جانب راغب کیا جائے حکومت نے اس پر بھی ٹیکس لگا کر سولر لگانے کے عمل کی راہ میںبڑی رکاوٹ کھڑی کر دی سولر سسٹم لگاکرسستی بجلی حاصل کرنے کے لئے دنیا بھر میں شہریوں کو تیس سے پچاس فیصد سبسڈی دی جارہی ہیںپاکستان میں اگرتوانائی کے مسئلے کا کوئی مستقل پائیدار ‘ آسان نسبتاً فوری حل ہے وہ سولر سسٹم کافروغ ہے ۔حکومت اس ضمن میں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے تو موزوں ہوگا۔
متاثرین کی واپسی اوران کے مسائل
تیراہ کوکی خیل راجگل کے سینکڑوں متاثرہ خاندانوں کی بارہ سال بعد اپنے آبائی گائوں کی واپسی کے عمل کا شروع ہوناقابل اطمینان امر ہے۔امر واقع یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران اس علاقے کے لوگوں کے گھر ‘ کھیت ‘ زراعت ‘ جنگلات سبھی کچھ متاثر اور تباہ ہوچکے ہیں جن کی آباد کاری یقینا دیرپا اور مشکل کام ہے اور اس کے لئے وسائل بھی درکار ہوں گے۔متاثرین کی امداد و آبادکاری کے لئے جتنا جلد ضروری اقدامات کو حتمی شکل دی جائے اور ان کو وعدے کے مطابق سہولیات فراہم کی جائیں اتنا ہی بہتر ہوگا۔توقع کی جانی چاہئے کہ اس ضمن میں متعلقہ حکام سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے اور واپس جانے والے افراد کو شکایت نہیں ہو گی۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے