عملی اقدامات کی بجائے سفارشات کیوں؟

صوبائی حکومت نے صوبہ بھر میں دریائوں کے کنارے تمام تجاوزات کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس سلسلے میں موجودہ قوانین کو مزید سخت بنانے کے لئے سفارشات کی تیاری کے ضمن میں سیکرٹری آبپاشی کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کمیٹی قائم کی جائے گی صوبائی حکومت صوبہ بھر میں دریائوں کے کنارے سے تجاوزات کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کی تیاری کر رہی ہے جب پانی سر سے اونچاہونے کو ہے اور موجودہ مون سون کی بارشوں نے تباہی مچادی ہے اور خدانخواستہ مزید نقصانات کے خدشات بڑھ رہے ہیں برسات کا موسم شروع ہونے سے قبل جن اقدامات کی ضرورت تھی اور ماضی میں تجاوزات ہٹانے کے جو احکامات تھے ان پر عملدرآمد کی عملی صورتحال پیدا کرنے کی بجائے اس طرح کی کمیٹیوں کا لاحاصل ہونا اور وقتی طور پر صورتحال کو ٹالنے سے زیادہ ان اقدامات کی کوئی حقیقت نہیں بہرحال حکومتی فیصلوں کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن کے سیاحتی مقامات پر دریائوں کے کنارے موجود تجاوزات کی نشاندہی کرکے ان کو ہٹانے کے لئے کمشنر ملاکنڈ کی سربراہی میں ایک آپریشنل کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ صوبائی سطح پر ایسے غیر قانونی تجاوزات کے موثر تدارک کے لئے سیکرٹری آبپاشی کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جائے گی مذکورہ کمیٹی موجودہ قوانین کو مزید سخت بنانے اور ان پر موثر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے سفارشات مرتب کرے گی۔کمیٹیاں بنا کر سفارشات مرتب کرکے ان پر عملدرآمد کے طریقہ کار سے اختلاف نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ قوانین پر عملدرآمد میں کیاا مر مانع ہے قبل ازیں حکومت متعدد بار تجاوزات قائم کرنے والوں کو نوٹس دے چکی ہے اور باقاعدہ رپورٹ مرتب کرکے اس کی روشنی میں تجاوزات کی نشاندہی کرنے کے بعد آپریشن شروع بھی کئے گئے مگر ابتداء ہی میں آپریشن مصلحتوں کی بناء پر دبائو یا پھر سیاسی بنیادوں پر روک دیئے گئے اس طرح کی صورتحال میں قوانین میں بہتری لانے سے زیادہ ضروری امر ان پر عملدرآمد کا ہے جس پرتوجہ کی ضرورت ہے تجاوزات کی نشاندہی کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہو رہی ہے اس حوالے سے قوانین اور رپورٹیں بھی موجود ہیں اصل بات عملدرآمد کا ہے حکومت جب تک پورے عزم کے ساتھ اس صورتحال سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ نہیں کرتی اور وقت گزاری کا عمل جاری رکھا جاتا ہے اس وقت تک تجاوزات کا خاتمہ اور آبی آلودگی کا تدارک ممکن نہیں حکومت کو راست اقدام میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئے ۔
فاقہ مستی
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے حیات آباد پشاور کے باغ ناران کی توسیع پر ایک ارب روپے خرچ کرے گی بیسائی پارک میں بچوں کے لئے کھیلنے کی جگہ سائیکلنگ ٹریک اور کیاریاں بنانے کا سارا عمل احسن ہے نیز بیسائی پارک کو باغ ناران حیات آباد کی توسیع کے طور پر شروع کرنے ایمفی تھیٹر یعنی وسیع سماعت گاہ کی تعمیر باسکٹ بال کورٹ ‘ بچوں کے کھیلنے کی جگہ ‘ پکنگ سپاٹ ‘ بیسائی بابا ویو پوائنٹ ‘ کار پارکنگ اور ٹینس کورٹ کا قیام احسن امر ہو گا منصوبے پر ایک ارب روپے سٹیز امپروومنٹ پراجیکٹ کے تحت ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرض لے کر خرچ کیا جائے گا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت کے پاس وسائل نہیں اور صوبہ پہلے ہی بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ایسے میں ایک ارب روپے کا بوجھ ایک ایسے منصوبے کے لئے ڈالنا جو ضروری تو ہے لیکن لازم نہیں ان سارے اقدامات سے اتنی آمدنی کی بھی توقع نہیں کہ اس سے ایک ارب روپے کا قرض اتارا جا سکے نیز پارکوں کی جو حالت زارہوتی ہے اور یہاں آنے والوں لوگوں کا جو رویہ دیکھا جاتا ہے اس انداز فکر و عمل کے لوگوں کے لئے اتنی بھاری رقم خرچ کرکے منصوبہ شروع کرنا کار عبث ہی ہوگا ا لبتہ اگر پی ڈی اے کے پاس فاضل رقم موجود ہو اور حیات آباد کے مکینوں کے تمام مسائل حل ہو چکے ہوں تو اس منصوبے کو شروع کرنے میں قباحت نہیں حکام کوایسے فیصلوں سے گریز کرنا چاہئے جو عوام کی بنیادی ضروریات اور سہولیات کی فراہمی کی بجائے اس طرح کے کم اہمیت کے منصوبے قرض لے کر مکمل کئے جائیں۔
صفائی کے احسن انتظامات
عید الاضحی کے موقع پر الائشوں اور جانوروں کی باقیات اٹھانے کے حوالے سے پی ڈی اے اور دیگر صفائی کمپنیوں کی جانب سے انتظامات پر صوبائی دارالحکومت سمیت صوبہ بھر میں اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ ان میں حقیقی طور پر عوامی حلقوں کی جانب سے اطمینان کا اظہار کتنا ہے اور میڈیا منیجروں نے اس کا کس حد تک اہتمام کروایا ہے اس سے قطع نظر اگر پی ڈی اے کا حیات آباد میں آپریشن اور متعلقہ اداروں کا شہر بھر میں صفائی کی صورتحال پر توجہ کا جائزہ لیا جائے تو ماضی کی بہ نسبت اس سال کے انتظامات بہترتھے ۔ جس سے اس امر کا احساس ہوتا ہے کہ ذرا سی توجہ اور انتظامات سے اگر عید الاضحی کے موقع پر کئی گنا اضافی کام بہ احسن ممکن ہوسکتا ہے تو عام دنوں میں یہ عملہ اورانتظامات نظر کیوں نہیں آتے جس سرگرمی سے کام کرنے کی ان دنوں ضرورت پڑتی ہے اس کا پچیس فیصد بھی معمول بنا لیا جائے تو صفائی کے ضمن میں شہریوں کی شکایات میں نمایاں کمی ممکن ہوگی۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟