4 357

عہدہ اور نخرے

شادی سے پہلے اپنے سوٹوں کی سلائی اور انتخاب اس بنیاد پر ہوتا تھا کہ ہمارے پاس کونسا عہدہ ہے، اگر افسر ہیں تو الگ سوٹ، اگر ترقی کرکے منیجر بن گئے تو سوٹ بہتر کپڑے کا اور سلائی ذرا اچھی اور اللہ نے اور مہربانی کی اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن گئے تو پھر سوٹ کا کپڑا امپورٹڈ ہو جائے گا اور سلائی مشہور درزی سے اور خدا خدا کرکے ڈائریکٹر بن گئے تو اچھے اور برانڈڈ پروڈکٹ کا استعمال شروع تاکہ پروقار نظر آئیں لیکن اب یہ سارے عہدے اور سارے وقار بیگم کیلئے ہوگئے ہیں۔ اگر وہ منیجر کی بیگم ہیں تو کچھ اور انداز کے سوٹ ہوں گے، کچھ اسی طرح میاں کی ترقی ہوگئی تو سوٹ امپورٹڈ ہونے کیساتھ ساتھ سلائی بھی قیمتی ہوتی جائے گی تاکہ سوٹ خود کہے کہ بھئی کتنے پائے کے افسر کی بیگم ہیں، شوہر چاہے لباس سے اسی دفتر کا چپڑاسی لگے۔ سارا دن محنت مزدوری کرکے شوہر جب فرمائشوں سے لدا گھر آتا ہے تو اس جانور کی طرح کہ جس کی لوگ توہین کرتے ہیں لیکن ہم اس کا نام اسلئے نہیں لکھ سکتے کہ کہیں وہ ہم پہ ہتک عزت کا دعویٰ نہ کر دے، بہرحال اس کی بھی کچھ عزت ہے لیکن شوہر کی کوئی عزت نہیں۔
حضرت انسان لاکھوں کروڑوں سال گزرنے کے باوجود تجربے کرنے سے باز نہیں آیا، اس دنیا کا وجود بھی اس کی کھوج ہی کا مرہون منت ہے، نہ یہ گندم کو کھانے کی جسارت کرتا نہ جنت سے نکالا جاتا اور نہ ہی اس دنیا میں یوں خوار ہوتا اور ستم ظریفی دیکھئے روایت پسند اتنا ہے کہ آج سے لاکھوں کروڑوں سال پہلے جس چیز کی وجہ سے خوار ہوا آج بھی اس کی بربادی وزلت کی وجہ وہی ہے یعنی کہ گندم اور آٹا کیلئے آج بھی وہ گلیوں میں دردر پھر رہا ہے، یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے چچا غالب نے کہا تھا کہ
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد
سرگشتہ خمارِ رسوم وقیود تھا
چلئے یہاں تک تو ٹھیک کہ بھئی اب گندم اس کیلئے جز ولاینفک ہوگئی ہے مگر اس سارے حال تک پہنچانے والی یہ عورت ذات سے تو کنارہ کشی اختیار کرلو کہ جنت سے نکال دینا کافی نہیں اور باربار اس پر بھروسہ کر رہے ہیں، پھر نام تو ذرہ دیکھئے شریک حیات، شادی کے بعد حیات بچتی ہی کہاں ہے جس میں ان ”بی” کو بھی شراکت داری دی جائے، ساری کی ساری خجالت بچی ہے، اب اس ساری متاع میں اگر خاتون شراکت کی خواہاں ہے تو آئیے آپ برابر کی شریک ٹھہریں، لیجئے کشکول (راشن کارڈ) اور قطار میں کھڑی ہو جائیے اور یوں نہیں تو یوں سہی کہ کہیں سے چلو بھر پانی مل جائے تو ڈوب مریں کہ سب نے سمجھایا کہ ”شادی نہ کرنا یارو پچھتاؤ گے ساری لائف” مگر ہم نہ مانے کچھ نے کہا کہ ”شادی ہے لڈو موتی چور کا جو کھائے پچھتائے جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے” تب ہم نے منطق بنائی کہ بھئی اگر ہماری قسمت میں پچھتاوا ہی لکھا ہے تو کچھ کئے بغیر ہی کیوں پچھتایا جائے، کیوں نہ شادی کرلیں اور خوب مزے سے پچھتائیں لیکن ہماری تو گویا مت ماری گئی تھی کہ زندگی بھر کا سکون غارت کرکے نموڑی شادی کرلی، اب سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آیا اور اوپر سے آٹے کیلئے دردر کی ٹھوکریں کھائیں سو الگ۔
شادی سے پہلے دفتر جانے کا اپنا ایک سٹائل تھا، اپنا خوب استری کیا ہوا سوٹ، میچنگ شرٹ، میچنگ ٹائی، اگر روزانہ نہیں تو ہر دو دن تین دن بعد سوٹ بدل لیا جاتا، موسموں کے حساب سے شرٹ اور ٹائی کا رنگ منتخب کیا جاتا، امپورٹڈ پرفیوم روزانہ لگاکر جاتے، ہماری چال ڈھال اور کام کو مدنظر رکھتے ہوئے مجال ہے کہ افسر ہمیں اونچی آواز میں بلائے، ایک نہیں کئی کئی نوکریاں
ہماری ٹھوکروں میں ہوتی تھیں لیکن شادی کے بعد تو گویا ایک ہی نوکری کرنی ہماری مجبوری ٹھہری، اس ایک بورنگ نوکری میں افسر کی روز روز کی جھاڑ کے تو ہم عادی سے ہوگئے ہیں اور اب ایسا ہے کہ جب تک صاحب جھاڑ نہ پلا دے دن ہی نہیں گزرتا اور گھر میں بیوی ڈانٹ نہ پلائے تو کچھ بھی ہضم نہیں ہوتا۔ گویا ڈانٹ نہ ہوئی ہاضمے کا چورن ہوگیا اور اگر پیٹ زیادہ خراب ہو تو یہ چورن صبح شام بلکہ دوپہرکو بھی باقاعدہ لیا جاسکتا ہے لیکن نہ ہی اس چورن سے اور نہ ہی کسی قسم کی جھاڑ سے ہمارے پیٹ وحالات ٹھیک ہوئے ہیں، نہ ہی ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہم تو بیٹھے اس وقت کو کوستے ہیں کہ جب ہم نے شادی کیلئے سپنے دیکھنے شروع کئے تھے، کون کونسے خواب نہیں بنے تھے! لیکن وہ خواب اب خواب ہی رہ گئے بلکہ اب تو ہمارا وہ سوٹ اور میچنگ شرٹ وٹائی کا شوق بھی ماضی ہوگیا ہے، اب تو سوتے جاگتے ایک ہی بات ہے کہ بیگم کیلئے اگلے ماہ کونسی فرمائش پوری کرنی ہے، اپنے لئے تھری پیس سوٹ کی خواہش تو پوری ہوئی نہیں بیوی کیلئے ہر ماہ ایک نیا تھری پیس سوٹ خریدنا تو گویا لازم ہوگیا ہے، سردیوں کے الگ گرمیوں کے الگ۔ کسی کی شادی پر اگر ہماری بیگم جارہی ہیں تو وہ الگ سوٹ ہوگا، کسی کا عقیقہ ہے تو سوٹ کا نہ صرف کپڑا رنگ بلکہ سلائی کا ڈیزائن بھی الگ ہونا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام