2 87

فاروق عبداللہ کی رہائی عالمی مداخلت کا نتیجہ؟

بھارت کشمیر کی فضا میں ”ٹارزن” بنا پھرتا ہے۔ اس اعتماد اور طاقت کی حیثیت پانیوں کے دوش پر تیرتی کاغذ کی ناؤ سے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ کشمیر کی زمین بھارت کے پیروں تلے ہے نہ عوام ان اس کیساتھ ہیں۔ عوام ایک الگ مقام پر حالات کی دیوار سے لگے بیٹھے ہیں تو بھارت دوسری سمت اور متضاد مقام پر کھڑا منصوبے بنا رہا ہے۔ اس طرح کشمیریوں اور بھارت کے درمیان اعتماد کی ایک نہ ختم ہونے والی خلیج حائل ہے۔ بھارت کے اعتماد کا راز فوج کا جماؤ، ریاستی طاقت، فیصلوں کو سنانے اور منوانے کی صلاحیت ہے۔ یہ اول وآخر طاقت کے استعمال کی کارفرمائی کا اصول ہے۔ ایک بڑی آبادی اور علاقے کو جیل میں بدل کر فیصلے ٹھونسے جانے کا سلسلہ جاری ہے مگر طاقت کے اس اصول کا اختتام آخرکار اس خلاء کو پر کرنے کی صورت میں ہی ہوسکتا ہے۔ بھارت کا کشمیر کے حالات میں ”ٹارزن” بن کر پھرنا تصویر کا ایک رخ ہے جبکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بھارت ایک دیدہ ونادیدہ دباؤ کی زد میں ہے۔ یہ دباؤ امریکہ، اقوام متحدہ اور پاکستان سمیت بہت سے حلقوں کی جانب سے قائم اور برقرار ہے۔ اضافی فوجی دستوں کی علامتی واپسی اور انٹرنیٹ کی پابندیوں کے جزوی خاتمے کے بعد اب کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی رہائی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کشمیر کے حالات سے بین الاقوامی کھلاڑی اس طرح کبھی الگ نہیں رہے جیسا کہ مختلف ادوار اور مواقع پر نظر آتا ہے۔ کشمیر میں نوے کی دہائی میں زوردار عسکریت کی لو مدھم کرکے ایک سیاسی عمل بحال کرانے میں امریکہ کا پس پردہ کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس دور میں امریکہ کے دہلی میں مقیم سفیر رابرٹ بلیک ول اس سارے مفاہمتی فارمولے کو زمین پر نافذ کرنے کیلئے سرگرم رہے۔ عسکری تنظیموں کی بندوقوں کو اس انداز سے خاموش کرانے میں بھی امریکہ نے فعال کردار ادا کیا تھا کہ کشمیر میں سیاسی عمل کو ایک راہ مل سکے اور نیشنل کانفرنس کے وابستگان کسی خوف کے بغیر بالائے زمین آکر اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ امریکہ نے پاکستان کو بھی اس حوالے سے مزاحمانہ کی بجائے مفاہمانہ کردار ادا کرنے پر آمادہ کیا تھا۔
کشمیر میں مفتی سعید کی قیادت میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے قیام کو بھی امریکہ اور برطانیہ کی خصوصی حمایت حاصل تھی۔ ایک مرحلے پر ان دونوں جماعتوں کو بدل کر حریت کانفرنس سے وابستہ ایک اہم شخصیت شبیر احمد شاہ کو بھی امریکیوں نے شیشے میں اُتار لیا تھا اور انہیں وزیراعلیٰ بننے کی راہ دکھائی تھی مگر شبیر احمد شاہ بہت جلد اس معاملے میں محتاط ہوکر پیچھے ہٹ گئے اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں باور کرا دیا گیا تھا کہ بھارت انہیں ماضی کے کرداروں کی طرح مطلب براری کیلئے استعمال کرنے کے بعد چھوڑ دیگا۔ نائن الیون سے کچھ ہی پہلے کشمیر میں حزب المجاہدین کی یکطرفہ جنگ بندی میں بھی امریکہ کا کردار اہم تھا۔ جنگ بندی کر کے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے والے کشمیری کمانڈر عبدالمجید ڈار برطانوی اور امریکی سفارتکاروں سے رابطوں میں تھے۔ اسی طرح فاروق عبداللہ اور مفتی سعید دونوں امریکہ کے قریب رہے ہیں۔ جنرل مشرف اور من موہن سنگھ کے درمیان کشمیر پر جو امن فارمولہ روبہ عمل ہوا اس میں امریکی ایک مضبوط ضامن کے طور پر موجود تھا۔ کشمیر میں سیاسی عمل کی بحالی اور پابندیوں میں نرمی کیلئے امریکہ کا یہ دباؤ بھارت پر اب بھی قائم ہے۔ فاروق عبداللہ کی رہائی اسی دباؤ کا نتیجہ معلوم ہو رہی ہے۔ کشمیر میں سیاسی عمل کی بحالی سے پہلے بھارت اپنے صفوں کو ازسرنو ترتیب دینے کی کوششوں میں مصروف ہے کیونکہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے بیرونی رابطوں کے باعث بھارت ان سیاسی قوتوں پر پوری طرح اعتماد کرنے سے گریزاں ہے اسی لئے ان دونوں جماعتوں کو ایک حد میں رکھنے کیلئے پی ڈی پی کے منحرف الطاف بخاری کی قیادت میں ”اپنی پارٹی” کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ کشمیر میں کئی سیاسی تجزیہ نگاروں نے اس پر ”مودی کی اپنی پارٹی” کی پھبتی کسی ہے۔ اس دوران ”را” کے سابق چیف اے ایس دولت نے ایک معنی خیز بات کی ہے کہ کشمیر کے اگلے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ ہوں گے۔ ”را” کے سابق سربراہ کی بات اگر درست ہے تو پھر یہ سمجھنا چاہئے کہ کشمیر پر عالمی قوتیں اس طرح لاتعلق نہیں جیسا کہ نظر آرہا ہے۔ پردے کے پیچھے سرگرمیاں جاری ہیں اور عالمی طاقت کا اونٹ خیمے میں سر دئیے بیٹھا ہے گویاکہ مسئلہ کشمیر مودی کے انداز سے حل نہیں ہوا کشمیریوں کے انداز میں حل ہونا ابھی باقی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت نواز کشمیری لیڈروں فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی کو حریت پسند قیادت کی طرح کسی عتاب یا عقوبت کے طور پر جیلوں میں نہیں رکھا گیا بلکہ مستقبل کے منظرنامے پر ان سے بات چیت کا عمل جاری ہے۔ یہ بات چیت بھارت بھی کر رہا ہے اور اس میں عالمی ضامن بھی کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔ یہی عالمی ضامن یہاں سے مڑ کر پاکستان کی طرف آئیں گے اور دوسرے مرحلے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی خلیج کم کرانے کی کوشش کریں گے۔ حریت پسندوں پر سے عتاب کا کوڑا کسی حد تک ہٹ گیا اور ان کی رہائی عمل میں آنا شروع ہوئی۔ منہ موڑے بیٹھی بھارتی عدالتوں نے انہیں ریلیف دینا شروع کیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مفاہمت کا جادو چل گیا ہے۔ سردست پاکستان اور بھارت میں کسی ٹھوس مفاہمت کے آثار نظر نہیں آتے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مفاہمت کے آثار کشمیر کی زمین پر دکھائی دیں گے۔

مزید پڑھیں:  صبر و تحمل سے کام لیں