سپریم کورٹ فل بنچ

فل بنچ ٹوٹ گیا،4جج الگ،انتخابات کیلئے حالات سازگارنہیں،تو وجہ بتائی جائے، چیف جسٹس

ویب ڈیسک: پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا۔ چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال مندو خیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ کو سماعت کرنا تھی لیکن سماعت سے پہلے 4 ججز نے بینچ سے خود کو الگ کرلیا۔ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس سمیت 5 ججز کورٹ روم نمبر 1 میں داخل ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 4 معزز ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے، عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا، آئین کی تشریح کیلئے عدالت سماعت جاری رکھے گی، آئین کیا کہتا ہے اس کا دار و مدار تشریح پر ہے، کل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کر کے ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ کیا الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو سکتی ہے۔ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن میں ایک گھنٹے کی بھی تاخیر نہیں ہو سکتی، تاریخ کی نہ الیکشن کمیشن ذمہ داری لے رہا ہے نہ گورنر ، صدر مملکت نے معاملے پر دو خطوط لکھے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدر مملکت کا خط ہائیکورٹ حکم کے متضاد ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن کمیشن نے تو اپنے جواب میں خود لکھا کہ گورنر سے مشاورت آئین میں نہیں، اگر مشاورت نہیں تو کمیشن پھر خود الیکشن کی تاریخ دے دیتا، الیکشن کمیشن اگر خود تاریخ دیدے تو کیا یہ توہین عدالت ہو گی؟ علی ظفر نے دلائل دئیے کہ خیبرپختونخوا میں صورتحال مختلف ہے، خیبرپختونخوا میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے پر دستخط کیے ، خیبرپختونخوا میں گورنر الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کر رہا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں کیس کی اگلی سماعت کل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر خیبرپختونخوا کو پشاور ہائیکورٹ میں 21 دن جواب جمع کرانے کے لیے دئیے
پشاور ہائیکورٹ نے 21 دن کا نوٹس کیوں دیا فریقین کو؟ قانونی نقطہ طے کرنا ہے یہ کوئی دیوانی مقدمہ تو نہیں جو اتنا وقت دیا گیا۔ چیف جسٹس نے آج ہی گورنر خیبرپختونخوا کے سیکرٹری کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سیدھا سادھا کیس ہے 18 جنوری سے گورنر تاریخ دینے میں ناکام ہے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ عدالت نے جائزہ لینا ہے کہ کیا لا اینڈ آرڈر یا کسی اور وجہ سے الیکشن میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 218(3)فری فیئر شفاف انتخابات کا کہتا ہے، الیکشن کمیشن کو شفاف الیکشن کروانے ہیں، کیا گورنر کی مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں، الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کرانا ہے ۔ علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن بے بسی ظاہر کرے تو عدالت کو ایکشن لینا چاہیے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ الیکشن کی تاریخ دینا ذمہ داری کس کی ہے؟۔
علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کی تاریخ کے تعین کا سوال ہی عدالت کے سامنے ہے، پوری قوم کی نظریں عدلیہ پر ہیں ۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ 2018 کے انتخابات کی تاریخ صدر مملکت نے دی تھی۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ سال 1976 میں آئین خاموش تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے، اسمبلی نے ترمیم کرکے صدر اور گورنر کو تاریخ دینے کا اختیار دیا، پنجاب کی حد تک صدر نے شاید تاریخ درست دی ہو، اگر کوئی آئینی ذمہ داری پوری نہیں ہورہی تو عدالت جایا جاسکتا ہے ، اگر گورنر تاریخ نہیں دیتا تو صدر کتنے دن میں تاریخ دے سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سمری آنے پر اسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے
گورنر اپنے حکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرتا ہے تو تاریخ بھی گورنر دے گا، گورنر تاریخ نہ دے تو صدر مملکت تاریخ دے گا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پورے پاکستان میں کرکٹ ہورہی ہے لیکن انتخابات نہیں ہوسکتے، کیسے ہوسکتا ہے کہ اس بنیاد پر انتخابات نہ ہوں کہ پیسے ہی نہیں ہیں۔ عدالت نے سماعت آج منگل تک ملتوی کردی۔ آج صدر مملکت کی جانب سے سلمان اکرم راجہ پیش ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  ڈالر کی قیمت میں اضافہ، 278 روپے 40 پیسے کا ہو گیا