2 471

فنکاروں کیلئے مالی امداد اور پنجاب کے فنکار

جس طرح عالمی سطح پر نسلی امتیاز کی بات کی جاتی ہے’ اسی طرح بعض ملکوں کے اندر لسانی امتیاز کے نعرے بھی بلند ہوتے ہیں’ مگر یہ جو معروف (کبھی ممتاز کہلانے والے) اداکارہ میرا کیساتھ برتا جارہا ہے اسے کس کھاتے میں رکھا جائے؟ یعنی کیا اسے ہم ”فنکارانہ امتیاز” کہہ سکتے ہیں؟ دراصل یہ سوچ اس لئے ہمارے ذہن میں اُبھری کہ حکومت پنجاب نے ویسے تو ایک خبر کے مطابق پنجاب کے 120فنکاروں کو 30اور50 ہزار روپے کی مالی امداد دی گئی ہے لیکن، میرا کو صرف پانچ ہزار روپے ماہوار پر ٹرخا دیا ہے حالانکہ بے چاری نے جو درخواست پنجاب حکومت کو دی تھی اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ان کا لاہور کے ڈیفنس میں ذاتی گھر ہے، تاہم سات افراد کی کفالت ان کی ذمہ داری ہے لہٰذا ان کا نام امدادی رقم لینے والے مستحق فنکاروں میں شامل کیا جائے۔ ارتضیٰ زیب (میرا کا اصل نام یہی ہے) کی درخواست پر ان کا نام محولہ فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے اور اب انہیں عید سے قبل ماہانہ پانچ ہزار روپے کی امدادی رقم ملنا شروع ہو جائے گی۔ پنجاب حکومت کی جانب سے قائم اس فنڈ میں دو ہزار کے قریب فنکار رجسٹرڈ ہیں۔ اس سارے قصے میں جو بات ہمیں اچھی لگی وہ پنجاب کے فنکاروں کا رویہ ہے جو انہوں نے حکومتی امداد حاصل کرنے کے حوالے سے اختیار کیا ہے یعنی دو ہزار فنکاروں کو مالی امداد جو کروڑوں میں بنتی ہے، ہر ماہ وصول کرنے والوں کیلئے تو اگرچہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی ہے اور اگر ان دوسو فنکاروں کو ماہانہ بنیادوں پر پانچ ہزار بھی ملتے رہیں جو ایک کروڑ ماہانہ بن جاتی ہے جبکہ جن کو یکمشت تیس اور پچاس ہزار دئیے گئے ہیں وہ اس رقم کے علاوہ ہیں، جبکہ انتہائی دکھ اور افسوس کیساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ حالیہ برسوں میں خیبر پختونخوا کے محکمہ ثقافت نے بھی صوبے بھر کے اہل فن اور اہل کمال کی ایک فہرست مرتب کرنے کیلئے کوششیں کرکے لگ بھگ پانچ سو فنکاروں، قلم کاروں، موسیقاروں اور اہل حرفہ وغیرہ کو تیس ہزار روپے ماہوار کے حساب سے مالی امداد کا ایک پیکج بنایا۔ اس حوالے سے نہ صرف معروف آرٹس کونسلوں بلکہ جہاں اس قسم کی تنظیمیں نہیں تھیں وہاں انتظامیہ کی مدد سے مجوزہ فارموں پر درخواستیں طلب کیں، یہاں تک کہ اخباری اشتہارات کے ذریعے متعلقہ افراد سے ذاتی طور پر بھی درخواستیں طلب کی گئیں اور پھر ہرشعبے کے ماہرین کی ایک ٹیم بنا کر تمام درخواستوں کا مرحلہ وار جائزہ لیا گیا۔ بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ بعض افراد کی جانب سے (بوجوہ نامزدگیاں نہ ہونے کی وجہ سے) نہ صرف متعلقہ کمیٹی کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اس سارے عمل پر الزام تراشیاں کرکے بدنام کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی، یہاں تک کہ بعض افراد نے عدالت سے رجوع کرکے ”نہ کھیڈن گے نہ کھیڈنے دیاں گے” والی صورت پیدا کر دی۔ صورتحال اس قدر اُلجھا دی گئی کہ معاملہ نیب تک جا پہنچا، جہاں فہرستوں کوچانچ پرکھ سے گزار کر مستحق اور غیرمستحق میں تمیز کرنے والے ماہرین کو بھی انکوائری کاحصہ بنا دیا گیا حالانکہ اس ساری تگ ودو کا نتیجہ یہی نکلا کہ جن لوگوں کے نام حتمی فہرست میں شامل کئے گئے تھے ان کو درست قرار دیا گیا لیکن اس پورے عمل پر شکوک وشبہات کی گرد اُڑانے والوں کے منفی روئیے کی وجہ سے محکمہ ثقافت نے ”توبہ استغفار” کرتے ہوئے آئندہ کیلئے فنکاروں کی فلاح وبہبود سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اگرچہ اس کے بعد فنکاروں کی تنظیموں نے بڑی کوشش کی کہ یہ سلسلہ جاری رکھا جائے اور صوبہ خیبر پختونخوا کے اہل ہنر وفن کی دادرسی کی جائے مگر معاملہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت والا بن چکا تھا۔ اگر صوبہ کے اہل ہنر وفن صبر سے کام لیتے تو ممکن تھا کہ صوبائی حکومت نے ان کی بہبود کیلئے جس انڈومنٹ فنڈ کے قیام کا منصوبہ بنایا تھا اس پر عمل درآمد ہو جاتا اور تیس ہزار روپے ماہوار نہ سہی پندرہ یا پھر دس ہزار روپے ماہوار امداد کا منصوبہ بن جاتا تو صورتحال انگریزی محاورے کے مطابق کچھ نہ بھی ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے، پر عمل درآمد کرتے ہوئے مزید حقداروں کو بھی فہرست میں جگہ مل جاتی، کیونکہ اگر پنجاب میں فنکاروں کو پانچ ہزار روپے ماہوار دئیے جا سکتے ہیں تو خیبر پختونخوا میںدس ہزار تو بہرصورت دوگنی رقم ہے۔ بہرحال اب دیکھتے ہیں کہ میرا جی ان پانچ ہزار روپوں کا ماہانہ وظیفہ قبول کرتی ہیں اور خاموشی سے یہ رقم لیکر اپنے سات افراد کی کفالت میں اسے اونٹ کے منہ میں زیرہ سمجھ کر ہی شکر ادا کرتی ہیں یا پھر اتنی رقم کو قبول کرنے سے انکار کرکے خیبر پختونخوا کے فنکاروں والا رویہ اختیار کرتی ہیں کیونکہ حکومت نے ویسے بھی ”کوئی بھوکا نہ سوئے” والا منصوبہ شروع کر دیا ہے جس کے بعد ممکن ہے میرا جی بھی اپنے ”بنگلے” کے باہر لائن میں کھڑی نظر آجائیں جو ٹفن میں سات افراد کیلئے خوراک حاصل کرنے کیلئے سرکاری گاڑی کے انتظار پر مجبور ہوں، اگرچہ اس حوالے سے داتا دربار سے مفت خوراک لانے کیلئے ایک نوکر کی ضرورت کا لطیفہ بھی خاصا مشہور ہے، میرا جی کی حالت پر تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے۔
میں حال دل زار سناتا رہا نیئر
وہ ہنستا رہا مجھ کو اداکار سمجھ کر

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ