5 435

فوبیا اور اسلاموفوبیا کیا ہے؟

فوبیا کے سادہ معنی خوف اور ڈر کے ہیں۔ خوف بھی ایسا جو حقیقت میں موجود نہیں ہوتا بلکہ کسی خاص وجہ سے کسی موقع پر ا نسان کے ذہن میں پیدا ہو جاتا ہے یا پیدا کروا لیا جاتا ہے ۔ اس کا تعلقات نفسیات کے ساتھ ہوتا ہے مثلاً بعض لوگوں کو بلند مقام پر جانے سے ڈر محسوس ہوتا ہے یہاں تک اسی قبیل کے بعض لوگ تین چار منزلہ بلند عمارت سے نیچے دیکھتے ہوئے چکراتے ہیں۔ اس طرح بعض لوگوں کو گہرائی اور بعض کوبعض جانوروں سے شدید خوف محسوس ہوتا ہے حالانکہ وہ بے ضررہوتے ہیں مثلاً بعض خواتین چھپکلی سے بہت ڈرتی ہیں بعض کو اندھیرے وغیرہ سے خوف محسوس ہوتا ہے۔اسی طرح بعض بیماریوں میں انسان کوبعض کھانے پینے کی چیزوں سے ڈر محسوس ہوتا ہے ۔ مثلاً بائولے کتے کے کاٹے شخص کو پانی سے ڈر لگتا ہے ‘ اسی طرح بعض افراد جو عشق میں ناکامی سے دو چار ہو جاتے ہیں یا بعض افراد جوکسی عورت کی بے وفائی کے شکارہو جاتے ہیں ‘ وہ محبت اور شادی وغیرہ کے نام سے خوف تک الرجک ہوجاتے ہیں اور جس محفل میں اس قسم کے موضوع پر بحث ہوتی ہو تو وہ وہاں سے بہت ناگوار یت سے چلے جاتے ہیں۔اسد اللہ غالب نے اپنے ایک شعر میں ان دونوں قسم کے خوف کا کیا خوبصورت ا ظہار کیا ہے:
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
اسی طرح یہ جو اسلاموفوبیا کی اصطلاح سامنے آئی ہے اس کا تعلق بھی اسی خوف سے ہے جو حقیقت میں موجود نہیں لیکن اسے اسلام اور مسلمانوں سے جوڑ کر ان دونوں چیزوں کو دنیا کے بعض خطوں بالخصوص مغرب میں اسے خوف کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے ۔ اسلام اور مسلمانوں کو باعث خوف قرار دلوانے میں اسلامی دنیا اور مغرب کے درمیان تاریخی واقعات بالخصوص صلیبی جنگوں کا بہت بڑا کردار ہے اگر کوئی 13ویں ‘ 14ویں صدیوں سے لے کر 20ویں ’21ویں صدی تک کا مغربی اشتراقی ادب مطالعہ کرلے تو اس کے سامنے یہ بات آسانی سے واضح ہوجائے گی کہ مغرب کے سکالروں نے کس طرح بے بنیاد اور غیر محقق مواد کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو اپنے عوام کے لئے ہوا بنا کر پیش کیا ہے ۔ یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ پرجو کتب لکھی گئی ہیں(چند ایک استثنیٰ کے بعد) اس میں اسلاموفوبیا سے بہت کام لیا گیا ہے لیکن نائن الیون کے بعد تو بہت شاطرانہ انداز میں بڑی چستی اور مستعدی کے ساتھ اسلام اور مسلمان کو دہشت گردی کے ساتھ ایسا جوڑا گیا کہ یہ آپس میں مترادف کہلائے جانے لگے ۔ اگرچہ اس میں ہمارا اپنا بھی بڑا قصور تھا لیکن زیادہ تر ڈیزائننگ وہاں سے کی گئی جو آج تک جاری ہے ۔
نائن الیون کے بعد مغرب میں تیار ہونے والی فلموں میں دہشت گردوں اور ہیرو کے مخالف ولن اور دشمن کاچہرہ ‘حلیہ اور لباس وہی اختیار کروایاگیا جو مسلمانوں کے ہاں استعمال ہوتا ہے یہاں تک کہ بچوں کی ویڈیو گیمز میں بھی اسی فوبیا سے کام لیا گیا۔ 21ویں صدی میں اسلامی دنیا میں جو کچھ ہوتا رہا اس کا بھی اسلاموفوبیا کی پیداوار میں بڑا کردار ہے ۔ بالخصوص عراق اور افغانستان کی جنگوں میں جو کچھ ہوا اور افغانستان میں طالبان کی تین سالہ حکومت کے دوران جو صورتحال مغربی میڈیا کے ذریعے دنیا کو دکھائی گئی اس نے اسلاموفوبیا کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ۔ افغانستان کی گزشتہ بیس سالہ واقعات نے اپنے پڑوسی ملک پاکستان پر جوا ثرات مرتب کئے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی میڈیا نے پاکستان کو کرہ ارض پر خطرناک ترین جگہوں میں شامل کروایا۔ اسی اسلاموفوبیا نے مغرب کی نوجوان نسلوں کو اتنا متاثر کیا کہ فرانس ‘ نیوزی لینڈ اور کینیڈا جیسے ملکوں میں مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے کئے گئے جس میں بے گناہ قیمتی جانیں چلی گئیں ۔ اس وقت ایک دفعہ پھر افغانستان میں جن حالات کے وقوع پذیر ہونے کی پیشن گوئیاں ہو رہی ہیں ‘ اس میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اپنے مغربی سرحدات کو مضبوط کرتے ہوئے عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کے خلاف اسلامی دنیا کو ملا کر توانا آواز بلند کرے ‘ جس طرح آج سے چند ماہ قبل وزیر اعظم پاکستان نے اس ا ہم مسئلے کو مختلف عالمی فورمز پر اٹھایا تھا۔ اسلامی ملکوں کی میڈیا اور اخبارات و دیگر ذرائع نشریات کو بھی اس حوالے سے اپنا فرض ادا کرنا چاہئے اور اس کو ایک اہم اور مقدس مشن کے طور پر لیکر اسلام کی حقانیت بیان کرنا چاہئے تاکہ دنیا کو اسلام کی امن پسندی کی تعلیمات سے آگاہی حاصل ہو سکے۔

مزید پڑھیں:  پولیس کی بروقت کارروائی اور تشدد