5 401

فی الحال یہ فتح مبارک!

پاکستان میں اس وقت ریکوڈک کیس کے حوالے سے سرخوشی کی فضا ہے۔ جو لوگ اس معاملے کو سمجھتے ہیں یا اس حوالے سے مضطرب محسوس کرتے رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اثبات کی جانب یہ فتح ایک اور قدم ہے۔ ریکوڈک اور اس کی نزاکت کو سمجھنے کیلئے ابتداً اس ساری صورتحال سے کچھ واقف ہونا بہت ضروری ہے۔ مختصراً میں آپ کی خدمت میں اسے کچھ اس طرح گوش گزار کر سکتی ہوں کہ دنیا میں اب سونے سے بھی زیادہ تانبے کو اہمیت دی جارہی ہے۔ تانبے کو دنیا کا نیا سونا (New Gold) کہا جاتا ہے۔ ریکوڈیک پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں ایک ننھا سا قصبہ ہے۔ یہ قصبہ اس مشہور معدنیاتی بیلٹ کا حصہ ہے جسے عرف عام میں ٹھیتیان کاپر بیلٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں موجود تانبے کے یہ ذخائر دنیا کے پانچویں بڑے ذخائر ہیں۔ یہ ٹھیتیان کاپر بلیٹ وسطی اشیائ، ترکی، ایران، افغانستان اور پاکستان کے علاوہ کئی دوسرے ممالک میں موجود ہے۔ روس میں بھی یہ ذخائر اسی بیلٹ میں ہیں۔ اس کی وجہ تسمیہ ٹھیتیان اس لئے ہے کہ یہ تانبے اور سونے کے ذخائر کی ایک لمبی جغرافیائی پٹی ہے۔ چلی اور کینیڈا کی دو کمپنیوں نے ملکر مختلف ممالک میں یہاں سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت کئے ہیں اور کانیں بنائی ہیں۔ ان دونوں کمپنیوں نے ٹھیتیان کاپر کمپنی بنائی ہے جو پاکستان میں صوبہ بلوچستان میں اس حوالے سے کام کرنا چاہتی تھی۔ حکومت بلوچستان نے اس کمپنی کیساتھ کیا ہوا معاہدہ اس بنا پر ختم کردیا تھا کیونکہ حکومت بلوچستان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ اور اس سے وابستہ تمام تر مراعات بدعنوان ذرائع سے حاصل کی گئی تھیں۔ پاکستان اور ٹھیتیان کاپر کمپنی کے درمیان مسائل پیدا ہونے کے بعد یہ معاملہ ورلڈ بینک انٹرنیشنل سینٹر آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹ ( World bank international centre of investment dispute) میں چل رہا تھا۔ ٹھیتیان کاپر کمپنی نے ہرجانے کے طور پر پاکستان پر 8.5بلین ڈالر کا دعویٰ کردیا تھا۔ پاکستان کی جانب سے عدالت کو بھی یہی کہا گیا تھا کہ چونکہ یہ معاہدہ ہی درست طور سے نہ ہوا اور اس کے حصول کا طریقہ بھی درست نہیں اس لئے حکومت پاکستان کسی ہرجانے کی ادائیگی کی مجاز نہیں۔ معاملہ اس عدالت میں چلتا رہا اور ایک عبوری فیصلہ سنایا گیا جس کے نیتجے میں پی آئی اے کے بین الاقوامی اثاثے اس معاملے سے منسلک کر دئیے گئے اور کچھ ادائیگیوں کا سلسلہ بھی شروع کروا دیا گیا۔ پاکستان دوبارہ اس حوالے سے اپیل میں گیا، اس بار پی آئی اے نے بھی اس عدالت کی جانب رجوع کیا اور عدالت کو یہ باور کروایا گیا کہ ان معاملات کا پی آئی اے اور اس کے اثاثوں سے کوئی تعلق نہیں۔ پی آئی اے حکومت پاکستان کے تحت کام کرنے والی ایک کمپنی ہے۔ اس معاملے پر اس کے اثاثوں کو پاکستان کیخلاف کسی ہرجانے کی ادائیگی کیلئے منسلک کرنا درست نہیں۔ پی آئی اے کا یہ مؤقف عالمی عدالت نے مان لیا ہے اور ان اثاثوں کو اس معاملے سے الگ کر دیا ہے جو لوگ ان ادائیگیوں کے حوالے سے نامزد کئے گئے تھے انہیں بھی فارغ کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک خاصی بڑی کامیابی ہے، حکومت وقت اگر اس کامیابی کا کریڈٹ لے رہی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ یقیناً ان کے دور میں اس حوالے سے خاصا کام ہوا ہے، پی آئی اے کے دونوں ہوٹل جو اس معاملے کیساتھ وابستہ کر دئیے گئے تھے بہت بڑے اثاثے تھے اور یقیناً ایسے معاملات میں چیزیں کوڑیوں کے مول بک جاتی ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ ہوٹل روزویلٹ جو نیویارک میں موجود ہے اور ہوٹل سکرائب جو پیرس میں ہے انہیں اس معاملے کیساتھ وابستہ کرنے کے بعد 2016ء ٹھیتیان کاپر کمپنی کیساتھ کان کنی کا لائسنس ختم کرنے کی پاداش میں ہرجانے کی ادائیگی کیلئے استعمال ہونا تھا اس سب کے علاوہ پی آئی اے کے چالیس فیصد شیئر جو منہال (Minhal incorporated) میں موجود تھے بھی منجمد کر دئیے گئے تھے۔ 2019ء میں پاکستان کو اسی عدالت سے 5.976بلین ڈالر کے ہرجانے کا فیصلہ بھی سنایا گیا تھا۔ اس ہرجانے کی ادائیگی، ان اثاثہ جات کو بیچ کر ہونی تھی۔ ستمبر2020 میں پاکستان کو اس حوالے سے ایک جزوی تعطل تو وصول ہوا لیکن اس کی شرائط میں حکومت پاکستان کی جانب سے ہرجانے کی رقم کا 25فیصد اور حکومت پاکستان کی جانب سے یہ گارنٹی تھی کہ رقم کی ادائیگی کی جائے گی۔ پاکستان کی جانب سے یہ ادائیگی بھی نہ ہوسکی، لیکن اب بہرحال پاکستان پی آئی اے اور اس کے اثاثوں کی حد تک یہ معاملہ تو طے پاچکا۔ اس کے بعد حکومت پاکستان اس حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے یہ بات خاصی اہم ہے۔ وہ ہرجانہ جو پاکستان پر لاگو ہوچکا اس کی ادائیگی کس حد تک ممکن ہے سب باتیں نہایت اہم ہیں، یہ بات بھی غورطلب ہے کہ کیا اس ہرجانے کے حوالے سے دوربارہ اسی عدالت کو یا کسی اور عدالت کی جانب رجوع کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ کئی سوال جواب طلب ہیں لیکن فی الحال یہ فتح مبارک ہو۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت دا گز دا میدان