فیصلے میں تعجیل نہیں تحمل

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نئے اور آئندہ الیکشن میں 135سے زائد حلقوں میں اپنے امیدوار تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ جاری صورتحال کی تناظر میں تو موزوں نظر آتا ہے لیکن جوں جوں حالات کی حقیقت واضح ہوتی جائے گی تو سیاسی ضرورت کے تحت اس فیصلے پر برقرار رہنا مشکل ہو سکتا ہے ۔تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی جانب سے پارلیمانی بورڈ تشکیل دینے کی منظوری اور بورڈ ہی کے ٹکٹوں سے متعلق پالیسی تشکیل دینے کا عندیہ اور ساتھ ہی انتخابی تیاریاں تیز کرنے کی ہدایت سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ دیگر معاملات سے قطع نظرتحریک انصاف کو یقین ہے کہ اب ملک میں نئے انتخابات کرانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ باقی نہیںنئے انتخابات کے بعد ہی سیاسی بحران کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا لیکن قبل ازیں سازش اور غداری سے متعلق الزامات کی تحقیقات اور ان الزامات کی حقیقت کوطشت ازبام کرنا اس لئے ازحد ضروری ہے کہ یہ ملکی وقار اور قانون کا تقاضا ہے کہ کسی ایسے فرد کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے جس پر غداری کا لیبل چسپاں ہو اور جو سازش اور غیر ملکی عناصر کے ہاتھوں کھیل کر ملک میں حکومت کے خاتمے کے لئے مدد حاصل کرے یہ ا لزام ہے یا حقیقت جب تک اس کا فیصلہ نہیں ہو جاتا نئے انتخابات میں جانا کار عبث ہو گا بلکہ یہ مزید انتشار اور عدم استحکام کی طرف ملک کو دھکیل سکتا ہے جو پہلے ہی معاشی اور سیاسی بحران کا بری طرح شکار ہے جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کے بطور جماعت فیصلوں کا تعلق ہے یہ ان کا سیاسی حق ہے کہ وہ کتنے حلقوں میں امیدوار تبدیل نہیں کرتے اور کتنے حلقوں میں میدان میں کن کو اتارتے ہیں اور کس سے سیاسی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتے ہیں بادی النظر میں پارلیمانی بورڈ کو بااختیار بنا کر اسی کے ذریعے ٹکٹوں کے اجراء کا عمل سیاسی طور پر دانشمندانہ فیصلہ ہو گا لیکن عملی طور پر جب ایک مرتبہ امیدواروں سے درخواستیں طلب کی جاتی ہیں تو پھر اس طرح کے فیصلوں کی خلاف ورزی خود قیادت ہی کی طرف سے ہونے لگتی ہے نیز ٹکٹ سے محروم رہ جانے والے بااثرجماعتی عہدیدار اور کارکن بھی دبائو بڑھانے لگتے ہیں۔ ماضی میں ٹکٹوں کے اجراء کے بعد واپسی کی مثالیں تک موجود ہیں تحریک انصاف کی حکومت کو جو مشکلات جن عناصر کی طرف سے اور جن وجوہات کی بناء پر پیش آئیں کارکنوں کی ناراضگی سے لے کر حکومتی فیصلوں پرعملدرآمد میںمشکلات پیش آئیں اس کے پیش نظراور علاوہ ازیں اس وقت ملک میں تحریک انصاف اور دیگر تمام اہم جماعتوں کے جس طرح کے سیاسی تعلقات برسرزمین نظر آرہے ہیںان تمام معاملات کامقابلہ اب تحریک انصاف کو تقریباً تن تنہاکرنا پڑ سکتا ہے ۔تحریک انصاف گزشتہ انتخابات میں اپنے مخلص کارکنوں کو نظرانداز کرنے کا جو تجربہ کر چکی ہے اس کے اعادے کی وہ کسی طرح متحمل نہیں ہو سکتی خاص طور پر پنجاب میں تحریک انصاف چار پانچ دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے جس کے سیاسی اثرات نہ صرف جاری سیاسی صورتحال میں ہی مرتب ہوں گے بلکہ آنے والے انتخابات میں تحریک انصاف کے لئے پنجاب سب سے بڑا چیلنج ثابت ہوگا ۔ان تمام عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ سازی اور اس پر عمل درآمد ہی میں تحریک انصاف کی کامیابی اور ناکامی کا دارمدار ہوگا کوئی حکمت عملی ابھی سے ترتیب دے کر اور بعد میں اس پر عمل درآمد میں ناکامی کی صورت میں مشکلات کا شکار ہونے کی بجائے بہتر ہو گا کہ پہلے سیاسی منظر نامے پرغیر یقینی کے چھائے گہرے بادل چھٹ جانے کا انتظار کیا جائے اور جلد بازی کی بجائے زمینی حقائق سامنے آنے کے بعد ہی حکمت عملی مرتب کی جائے ۔
مہنگائی پر کنٹرول؟
کمشنر پشاور کے فعال ہوکرتمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے لئے بازاروں کا رخ کرنے کی ہدایات کا کتنا اثر ہوا ہے ‘ اس حوالے سے تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ پشاور کی ضلعی انتظامیہ کی ساری کوششیں رائیگاں جاتی نظر آرہی ہیں کیونکہ بیشتر خوردنی اشیاء کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے برعکس مارکیٹوں سے اشیائے صرف کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ کی خبریں آرہی ہیں ‘ بازاروں میں دکانداروں نے اپنے طور پر قیمتیں بڑھا کر مہنگائی کے مارے ہوئے عوام پر نئی مصیبت نازل کردی ہے پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ کے علاوہ ٹماٹر کی قیمت گزشتہ ایک ہفتے کی نسبت 100 روپے سے بڑھ کر اب 300 روپے کلو تک جا پہنچی ہے ‘ اسی طرح گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ حد سے تجاوز کر گیا ہے ‘ جبکہ عام غریب عوام مہنگائی مافیا کے ہاتھوں رل گئے ہیں ضلعی انتظامیہ جو دعوے کرتی رہی ہے اس کے برعکس اس ہوشرباء اضافے کا کارن بھی بتا دے ‘ کیونکہ مہنگائی کا مسئلہ تو ڈیمانڈ اینڈ سپلائی سے جڑا ہوا ہے توپھرکیا وجہ ہے کہ اشیائے صرف کی سپلائی متاثر ہوئی ہے اور اگر ایسا ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟ یعنی ذخیرہ اندوزی یا پھر کچھ اور ‘ بہرحال جوبھی ہو اس صورتحال کا تدارک ہونا چاہئے ‘ اورمارکیٹ میں سپلائی چین کو فعال کرکے قیمتوں کو کم کرنے پر توجہ دینی چاہئے ‘ صرف اخبارات یا پھر میڈیا پر ”فعالیت” کی خبریں چلوانے سے عوام کے دلدر دور نہیں کئے جا سکتے ‘ امید ہے انتظامیہ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے سخت تادیبی اقدامات اٹھا کر ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کو کھل کھیلنے کی اجازت نہیں دے گی۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام