فیملی پارک کی بندش مسئلے کا حل نہیں

بنوں میں فیملی پارک کوبند کرنے کا مطالبہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے اس احتجاج میں توڑ پھوڑ تک کی نوبت نہیں آنی چاہئے تھی۔ بنوں میں فیملی پارک کے قیام کے وقت اگر علمائے کرام اور اکابرین و عمائدین اس وقت اس کی کھل کر مخالفت کرتے تو اس کی گنجائش تھی ایک عرصے بعد اس حوالے سے اس طرح کا اقدام عوام کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کو بھی مشکل میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔پارک کی بندش مسئلے کا حل نہیں اور نہ ہی اس کی حمایت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی کو طاقت کے زور پر ایسا کرنے کی حکومت اور انتظامیہ اجازت دے سکتی ہے ا لبتہ ایک ضابطہ اخلاق مرتب کرکے اس پر عملدرآمد سے درمیانی راستہ نکالا جا سکتا ہے فیملی پارک میں اپنے خاندان کے ساتھ تفریح کے لئے آنے میں کوئی برائی نہیں اس کا اگر غلط فائدہ اٹھایا جا رہا ہے تو ان عناصر کو روکنے کی ضرورت ہے نہ کہ پارک ہی بند کرکے تفریح کا ایک میسر موقع ہی بند کر دیا جائے ۔ بنوں جیسے قدامت پسند معاشرے کو چھوڑیں صوبائی دارالحکومت پشاور میں بھی تفریح کی سہولتوں کی کمی ہے ایسے میں ایک پارک ہی کو بند کر دینا تو تفریح کے متلاشی خاندانوں سے ناانصافی ہو گی اور ایسا کسی قانون کی رو سے ممکن نہیں کہ ایک گروپ کے مطالبے پر پارک بند کر دیا جائے اس کے جہاں مخالفین ہوں گے وہاں پارک جانے والوں کی صورت میں اسے بحال رکھنے کا مطالبہ بھی ہوسکتا ہے اگر قابل اعتراض ماحول پر پارک بند کرنے کے مطالبے کو پذیرائی بخشنا ہے تو سب سے پہلے جناح پارک پشاور کی بندش کا مطالبہ کیا جانا چاہئے مسئلہ پارک جانے اور تفریح کا نہیں مسئلہ اس سہولت کا غلط استعمال اور غلط کاری ہے تو اس کی روک تھام یقینا ہونی چاہئے اور یہ تفریح کے لئے پارک آنے والے لوگوں کی بھی حق تلفی ہے کہ ان کو صاف ستھرا ماحول نہیں ملتا اگر انتظامیہ بے بس ہے تو پھر پارک کی بندش کی بجائے اسے لیڈیز پارک بنا دیا جائے تاکہ خواتین کو سہولت حاصل رہے کہ وہ پردے کی فضا میں تھوڑی بہت ہوا خوری کر سکیںدوسروں کو زبردستی روکنے اور پارک میں توڑ پھوڑ کی جگہ عمائدین اصلاح معاشرہ پر توجہ دیں تو زیادہ بہتر ہوگا انتظامیہ کو پارک کے حوالے سے تحفظات دور کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرکے معترضین کو مطمئن کرنا چاہئے اور معاملے کا معقول حل تلاش کیا جانا چاہئے ۔
ڈاکٹروں کے بعداب نرسنگ سٹاف کے استعفے
ڈاکٹرز کے استعفوں کے بعد مختلف وجوہات کے باعث لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے نرسنگ سٹاف کے بھی ہسپتال چھوڑنے کی نوبت صوبے کے سب ے بڑے تدریسی ہسپتال اور یہاں علاج کے لئے آنے والوں کے لئے نیک شگون نہیں بلکہ اس سے مزید انحطاط کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اب ہسپتال ڈاکٹروں کے بعد نرسنگ سٹاف کے لئے بھی موزوں ملازمت کی جگہ نہیں رہی۔ انتظامیہ کی جانب سے ایسوسی ایٹ نرسنگ ڈائریکٹراور منیجر نرسنگ سمیت درجنوں نرسنگ سٹاف کے استعفے جمع کرانے کی تصدیق کر دی گئی ہے واضح رہے کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور سے گزشتہ تین سال میں درجنوں ڈاکٹرز کی ملازمتیں چھوڑنے کے بعدکم تنخواہوں ‘ رہائشی ہاسٹل ‘ سروس سٹرکچر اور دیگر بنیادی پالیسیاں نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر نرسنگ سٹاف بھی ہسپتال چھوڑنے پر مجبور ہوگیا ہے ۔ایل آر ایچ کو جس طرح سے تجربہ گاہ بنایا گیا اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے جو نظام رائج کرنے کی سعی کی جاتی رہی اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے ڈاکٹروں اور نرسنگ سٹاف کی مزاحمت اوربالاخر ملازمت ہی سے انکار کوئی معمولی مسئلہ نہیں جس سے صرف نظر کی جا سکے ہسپتال کے تجربہ کار طبی عملے سے خالی ہونے او ان کی جگہ ممکنہ طور پر نئی بھرتی سے کام چلانے کا مزید تجربہ لاحاصل ہو گا بہتر ہوگا کہ اب بھی اس کا کوئی حل نکالا جائے اور ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ ڈاکٹر اور نرسنگ سٹاف کام چھوڑنے پر مجبور نہ ہوں۔
سکولوں میں صفائی کی مہم
صوبے کے تیس ہزار سے زائد پرائمری ‘ مڈل ‘ ہائی اور ہائیر سیکنڈری سکولوں میں سکول صفائی دن کے طور پر منانا احسن اقدام ہے ہمارے تئیں اس اقدام کی نوبت ہی نہیں آنے دینا چاہئے تھا بلکہ سکولوں میں روزانہ کی بنیاد پر صفائی کویقینی بنایا جانا چاہئے عمارتوں کی مرمت رنگ و روغن اور فرنیچر سمیت پینے کے پانی سست پنکھوں کی جگہ چلنے والے پنکھے جیسے لوازمات پوری کی جانی چاہئے کبھی کبھار مہم چلانے سے یہ مسائل حل نہیں ہو سکتے اس کاحل سعی پیہم ہے ۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات