قابل اعتراض الفاظ اکے استعمال کا المیہ

گزرتے دن کے ساتھ سیاسی گرماگرمی کا عروج پر پہنچ کر نامناسب صورتحال میں تبدیل ہونافکرمندی کا باعث امر ہے ۔جمہوری سیاست جس سیاسی برداشت اور تحمل کا متقاضی ہے وہ تو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل ہی عنقا تھی سیاستدانوں کا لب و لہجہ تلخ ہی نہیں بلکہ عرصے سے قابل اعتراض گفتگو کو سیاسی سمجھا جانے لگا تھا تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد کے حالات و واقعات نے رہی سہی کسربھی پوری کر دی ہے ۔اب تک جوسیاستدان تحمل مزاج اور شائستہ متصور ہوتے تھے اب وہ بھی دوسروں کی صف میں آگئے ہیں ملکی سیاست میں اب تحمل اور برداشت نام کی کوئی چیز تو باقی نظر نہیں آتی افسوسناک امر یہ ہے کہ اخلاق و آدب کا دائرہ بھی اب باقی نہیں رہا وزیر اعظم عمران خان کی شعلہ بیانی اور الفاظ کے چنائو میں عدم احتیاط کے ساتھ ساتھ مافی الضمیر کا برملا اظہارکوئی پوشیدہ امر نہیں سیاسی مخالفین ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے بازاری لب و لہجہ اختیار کرنے تک آگئے ہیں اور اس کا ان کو ذرا بھی احساس نہیںزبان کی پھسلن کوئی عیب نہیں بلکہ اس طرح کی غلطی ہر کسی سے سرزد ہوتی ہے اردو بھی ہر کسی کی مادری زبان نہیںالفاظ لب و لہجہ تلفظ اور الفاظ کی ادائیگی میں غلطی کوئی عیب نہیں لیکن جاری سیاسی حالات میںاس کو بھی طنز کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے اس حد تک بھی صورتحال رہتی تو بھی درست ہوتا لیکن اب اس طرح کا لب و لہجہ اختیار کیا جارہا ہے جس کی مسخروں سے بھی توقع نہیںسیاسی لیڈروں نے بھانڈوں کا لب و لہجہ اپنا لیا ہے اور ان کے الفاظ بعض اوقات مسخروں کے لئے بھی شاید ہی قابل قبول ہوں ۔سیاستدان ایک دوسرے کو جن الفاظ سے بھی پکاریں اس سے قطع نظر اب توسیاسی جلسوں میں کسی کی کہی بات کا بھی یہ سوچے بنا افشاں کیا جا نے لگا ہے کہ انہوں نے کس تناظر میں اور کس موضوع پر گفتگو میں کوئی بات کی ہو یا پھرکسی نامناسب جملے اور الفاظ کے استعمال کی طرف توجہ دلائی ہوجو بات جلسہ عام اور بھرے مجمع میں کہنے کی نہیں ہوتی خلوت میں کہے گئے وہ الفاظ بھی اب امانت اور راز رکھنے کا دستور نہیں رہا اور اسے طشت ازبام کرنے سے گریزنہیں کیا جارہا ہے معلوم نہیں اس طرح کے حالات اور صورتحال میںکوئی کیسے کسی کردار یا مصالحت کرانے پر کیسے آمادہ ہوگاجس طرح کی صورتحال بنی ہوئی ہے یہ ملک میںجمہوری نظام اورخود سیاستدانوں کے حق میں اچھا نہیںوزیراعظم عمران خان پی ڈی ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف جیسی مقتدر شخصیات کے ایک ہی دن کی بیان بازی اور ایک دوسرے کے حوالے سے طنزیہ اور توہین آمیز الفاظ کے استعمال کا جائزہ لیا جائے یا پھر وزیر اطلاعات اور حکومتی ترجمانوں اور حزب اختلاف کی جانب سے ان کے جوابات دیکھے جائیں تو کسی طور یہ نہیں لگتاکہ انہوں نے پہلے تولو بھر بولو کا محاورہ زندگی میں کبھی سن بھی لیا ہو گا۔ اختتام ہفتہ سیاسی بازار کی رونق کے عروج کے ساتھ کشیدگی کا جن بھی سرچڑھ بول رہا ہے ۔سیاسی سرگرمیاں جمہوریت کا حصہ ہوتی ہیں مگر سیاست کے قواعد و ضوابط اور حدود و قیود بھی ہیں سیاسی رہنمائوں کو اصولی طور پر نہ صرف اپنے جذبات اور زبان پر قابو رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ نہایت محتاط اور ذمہ داری و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔سیاست اور جمہوریت میں بندوق اور اینٹ کا جواب پتھر نہیں ہوا کرتے بلکہ سیاسی چالیں اور جوڑ توڑ کے ذریعے مخالفین کو جواب ہوتا ہے ۔ہر جانب کشیدگی اور غصے کا عالم ہے الفاظ نامناسب ‘ لہجہ تلخ اور جذبات مشتغل ہیں ایسے میں ذرا سی بے احتیاطی ملک میں امن و امان ہی کے لئے نہیں اس نظام کے لئے بھی بدنامی کا باعث بلکہ خطرہ تک ثابت ہو سکتا ہے اسے بدقسمتی ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ ہر طرف کشیدگی پر مبنی ماحول ہے کوئی بھی ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ایسے میں کس کس کو احتیاط کی تاکید کی جائے جب وزیر اعظم ہی جذبات میں آکر اپنے عہدے کے تقاضے ہی بھلا دیں تو باقی کیا بچتا ہے ۔اس وقت حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی سیاسی دلچسپی اور ذمہ داری تحریک عدم اعتماد پر ہی توجہ مرکوز کرنے میں ہے حزب اختلاف نے تحریک عدم اعتماد کی صورت میں جو سیاسی فیصلہ کیا ہے اس میں کامیابی ہی ان کے حق میں بہتر ہے جبکہ حکومت کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ اس کی جانب سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جسے انتقام یا پھر سیاسی کمزوری پر محمول کیا جا سکے حکومت کے پاس ووٹ پورے ہیں تو اسے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے بلکہ اعتماد کے ساتھ حالات کو پرامن اور معمول پر رکھ کر اور آئین و دستور کے مطابق پارلیمان کے اجلاس میں حزب اختلاف کو عددی اکثریت سے شکست دینی چاہئے جبکہ حزب ا ختلاف جس قسم کے دعوے کر رہی ہے اور عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے لئے ضرورت سے زیادہ پر اعتماد دکھائی دیتی ہے اسے بھی پارلیمان کے اندر حکومت کی شکست پراپنی سرگرمیاں مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے حکومت اور حزب ا ختلاف دونوں کوچاہئے کہ وہ محاذ آرائی سے گریز کریں’ انتشار سے گریز کی اس وقت جتنی ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی توقع کی جانی چاہئے کہ ماحول کو معمول پر لانے میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں اپنا کردار ادا کریں گے ۔ سیاستدانوں کی جانب سے جس قسم کی صورتحال بنائی گئی ہے اس کو سدھارنے اور معمول پرلانے کی ذمہ داری بھی انہی پر عاید ہوتی ہے ان کو اپنے لب و لہجہ پرغور کرنا چاہئے سیاسی معاملات کو ذاتیات اور توہین تک لے جانے سے گریز کیا جانا چاہئے تحریک عدم اعتماد کو ذاتی لڑائی نہ بنایا جائے بلکہ اس حوالے سے آئین و دستور میں جو طریقہ کار متعین ہے اس کے مطابق اسے انجام پذیر ہونا چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''