5 60

قاتل صبح کوئی ایک نہیںسارے ہیں

چوںکفرازکعبہ، خیزد، کجا ماند مسلمانی، پیسکو والوں کی مدد میں آگے آگے رہنے والی پولیس کے کردار پرحرف گیری کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر یقیناحیران کن بھی ہے اور افسوسناک بھی، عام بجلی چوروں کے یعنی کنڈے لگانے والوں سے نمٹنے اور پیسکو کی ٹیم کا ساتھ دینے میں سرکاری طور پر پولیس والوںکی ڈیوٹی اس لئے لگائی جاتی ہے کہ جب وہ کنڈے ہٹانے کیلئے کارروائی کریں تو بجلی چور کوئی مزاحمت نہ کر سکیں، کیونکہ پیسکو والوں پر ماضی میں اکثر چندشرپسندوں کے حملوںکی خبریں بھی آتی رہی ہیں اسلئے ان کو تحفظ دلوانے کیلئے متعلقہ علاقوں کی پولیس ان کیساتھ ہوتی ہے مگر جب خود قانون کے رکھوالے ہی قانون شکنی پر اُتر آئیں تو پھر گلہ کس سے کیا جائے۔بقول سجاد بابر مرحوم
اپنے تاریک گریباں میں جھانکا تو کھلا
قاتل صبح کوئی ایک نہیں سارے ہیں
بنوں سے خبر آئی ہے کہ وہاںکی پولیس نے غیر قانونی کنڈے ہٹانے پر واپڈا اہلکاروں کو حوالات میں بند کر دیا، جس پر واپڈا ہائیڈرو یونین نے کام بند کرنے کی دھمکی دیدی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ گزشتہ روز واپڈا بنوں کے ملازمین نے تھانہ صدر اور تھانہ سٹی کی حدود میں غیرقانونی بجلی استعمال کرنے والوں کیخلاف آپریشن کیا جس کے دوران سٹی پولیس سٹیشن اور چوکیوں کے غیرقانونی کنکشن بھی منقطع کر دیئے گئے، پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے واپڈا کے پانچ ملازمین کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کردیا،اس واقعے کیخلاف پاکستان ہائیڈروالیکٹرک ورکرز یونین بنوں سرکل کے چیئرمین نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اگرپولیس کا یہی رویہ رہا تو ہم اپنے ملازمین کو کام کرنے سے منع کر دیں گے اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کی ذمہ داری ضلعی انتظامیہ اور پولیس پر ہوگی۔وہ جو فارسی زبان کا ایک قطعہ ہے کہ
قوی شدیم چہ شد، ناتواں شدیم چہ شد
چنیں شدیم چہ شد یا چناں شدیم چہ شد
بہیچ گونہ دریں گلستاں قرارے نیست
توگر بہار شدی، ما خزاں شدیم چہ شد
یعنی اگر کوئی قوی ہوگیا تو کیا،ناتواںہوگیا تو کیا،تم بہار ہوئے تو کیا،میںخزاں ہوا تو کیا،لیکن یہاں تو دو”ہاتھیوں”کے درمیان رن پڑنے کا اندیشہ ہے،اگرچہ ان میں سے کوئی بھی”سفید ہاتھی” نہیں ہے، دونوں زورآور ہیں اس لئے وہ جو کہتے ہیں کہ ہاتھیوں کی لڑائی میںگھاس کے پیسنے کا ڈر رہتا ہے اس لئے ایک جانب پولیس والے اور دوسری جانب بجلی والے، ایک کے پاس ”قانون”کی طاقت تو دوسرے کے پاس ”بجلی”کی قوت، ایک اگر واپڈا والوں کو سلاخوں کے پیچھے بند کر سکتا ہے بلکہ (ضرورت پڑنے پر) چھترول کر سکتا ہے تو دوسراصرف ایک بٹن آف کرنے سے پورے علاقے کو بجلی سے محروم کر سکتا ہے اور اگر نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو ان دونوں کی ”لڑائی” میں غریب عوام پس جائیں گے کہ بغیر بجلی کے پانی بھی ناپید ہو جاتا ہے اور دنیا بھر کے کام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، ویسے اگر یہ کنڈے پولیس والوں کے گھروںمیں لگائے جاتے تو پھر بھی کوئی نہ کوئی جواز تو تھا کہ بے چارے پولیس والوں کی تنخواہیں ہی کتنی ہیں اس کیساتھ وہ جو روایتی طور پر عوام کی جیبوں سے ”اپنا حصہ” نکلواتے رہتے ہیں، عید بقر عید کے مواقع پر ”عیدی” بھی وصول کرتے ہیں پھر بھی بے چارے فریادکناں رہتے ہیں مگر یہاں تو معاملہ تھانوں اور چوکیوں کاہے جہاں استعمال ہونے والی بجلی کے بل خود سرکار کوادا کرنے ہوتے ہیں تو آخر ایسی کونسی اُفتاد آپڑی ہے کہ سرکار کے ایک ادارے کے بل ادا کرنے میںدوسرا سرکاری ادارہ بھی ناکام ہے، اس صورتحال کا تدارک یوں بھی تو کیا جاسکتا ہے کہ یا تو ہر تھانے اور چوکی میں سرکاری طور پر ”چندہ برائے مسجد” کی طرز پر چندہ برائے بجلی تھانہ/چوکی کیلئے ڈبے رکھوا دیئے جائیں اور جس طرح عام طور پر تھانوں میں جا کر رپورٹ وغیرہ درج کرانے کیلئے پولیس والے سائلوں سے ایک ایک دستہ کاغذ منگوایا کرتے تھے اسی طرح انہیں ان چندوں والے ڈبوں میں ”حسب توفیق” اپنی جیبیں ہلکی کرنے پر آمادہ کیا جائے جبکہ دوسرا آسان نسخہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بجلی بلوں میں جس طرح ٹی وی لائسنس کیلئے ہر ماہ 35روپے وصول کئے جاتے ہیں (جو تازہ اطلاعات کے مطابق سو روپے کر دیئے گئے ہیں) اسی طرح ہر بل میں تھانوں/چوکیوں کی بجلی کیلئے بھی سوروپے رکھے جائیں اور یہ رقوم متعلقہ تھانوں کے بلوں کے مطابق منہا کئے جائیں۔ یوں بجلی والوں کو یہ شکایت بھی نہیں رہے گی کہ تھانے کے بل بروقت ادا نہیں کئے جاتے کیونکہ رقوم تو ڈائریکٹ عوام کی جیبوں سے (ان کے بلوں کی صورت) واپڈا کے اکاؤنٹ میں پہلے ہی سے جمع ہوتی رہے گی اور پھر پولیس والوں کو بھی سرکاری کام کیلئے اس ”بدعنوانی” کا مرتکب نہیں ہونا پڑے گا، اس لئے نہ پولیس والے چوری پر مجبور ہوں گے نہ کوئی جھگڑا پیدا ہوگا۔ اس لئے اگر بجلی بلوں میں ”سرکاری بجلی” کیلئے چندہ اکٹھا ہوگا تو پھر جھگڑا کس بات کا؟ نظیر اکبر آبادی نے کیا خوب کہا تھا
مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن ونمازیاں
اور آدمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں
جو ان کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس