p613 342

قانون بنانے کے بعد عملدرآمد بھی کرایئے

خیبرپختونخوا میں چودہ سال سے کم عمر بچوں کے حوالے سے مسودہ قانون کی تیاری اہم پیشرفت ہے، قانون کے مطابق گھریلو ملازمین سے آٹھ گھنٹے ہی کام لیا جا سکے گا، گھریلو ملازمین کو تقررنامہ اور معاہدہ کے بغیر رکھنا جرم ہونا اور ملازمت سے برخواستگی کیلئے ایک ماہ کا نوٹس گھریلو ملازمین کے تحفظ اور فلاح وبہبود کے ضمن میں اہم ہوگا۔ اس وقت گھریلو ملازمین کے کوئی اوقات کار نہیں بلکہ ان کو چوبیس گھنٹے کا ملازم تصور کیا جاتا ہے، ان کی تنخواہ اور ملازمت دونوں کے بارے میں اب تک کوئی قانون نہ ہونے سے ‘ہیں بہت تلخ بندہ مزدور کے اوقات’ والے حالات تھے۔ اگر چہ محکمہ محنت کو قانون پر عملدرآمد کی ذمہ داری دی گئی ہے اور مسودے میں قانون کے نفاذ کا پہلو مد نظر رکھا گیا ہے لیکن عملی طور پر اس پر عملدرآمد کے حوالے سے خدشات کا وثوق سے اظہار کیا جاسکتا ہے اسلئے کہ قوانین تو کم سے کم اُجرت کے حوالے سے بھی موجود ہیں۔ ملازمت کا تحفظ اور تقرر نامہ کی شرط کیساتھ ساتھ نجی اداروں کے ملازمین کیلئے موجود ومروج ہیں لیکن اس پر عملدرآمد کی کیاصورتحال ہے، سرکاری عمال قوانین کے نفاذ اور نگرانی کے فرائض کس حد تک انجام دیتے ہیں یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں۔ مشاہدے اور تجربات کی روشنی میں تو محولہ قانون سازی کو ایک کار لاحاصل گرداننے کی پوری گنجائش موجود ہے لیکن اس کے باوجود توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت نہ صرف اسے باقاعدہ قانون بنائے گی بلکہ اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جائے گا۔
اُمت مسلمہ کیلئے باعث صدمہ امر
اگرچہ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے اسرائیل کیساتھ کسی قسم کے روابط اور اسرائیل کے سفر کی اپنے شہریوں کو اجازت دینے والی اطلاعات کو مسترد کیا ہے لیکن بنگلہ دیش کے پاسپورٹ میں جو تبدیلی کی گئی ہے اس کے بعد بنگلہ دیشی شہریوں کے اسرائیل جانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ سیدھی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے نئے پاسپورٹ پر یہ واضح طور پر لکھا نہیں گیا ہے کہ یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک جانے کیلئے کار آمد ہے۔ اسرائیل کے حوالے سے واضح ممانعت جس طرح پاکستانی پاسپورٹ پر موجود ہے اس تحریر کے ہوتے ہوئے کوئی پاکستانی شہری قانونی طور پر اسرائیل نہیں جا سکتا، بہرحالبنگلادیشی وزیر خارجہ ڈاکٹر اے کے عبدالمؤمن نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے جارہے اور نہ ہی بنگلادیشی حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے۔انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاسپورٹ میں سے سوائے اسرائیل کے الفاظ نکالنے کا مطلب یہ نہیں کہ اسرائیل کے معاملے پر بنگلادیش کے مؤقف میں تبدیلی لائی گئی ہے۔ بنگلادیشی شہریوں کے اسرائیل سفر پر پابندی برقرار ہے۔اس سے قبل، تائیوان سے سفارتی تعلقات نہ رکھنے کے باوجود ، بنگلہ دیش نے پاسپورٹ سے ”سوائے تائیوان” کے الفاظ ختم کرکے اپنے شہریوں کو تائیوان کے سفر کی اجازت دے دی تھی جس کے بعد تائیوان کیساتھ بنگلہ دیش کے معاشی روابط میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نئے جاری کردہ پاسپورٹوں کیساتھ ، بنگلہ دیش کے شہریوں کو اسرائیل کے دورے پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہوگی، جس سے دونوں ممالک کے مابین تعاون کا نیا راستہ کھل جائے گا۔ بنگلہ دیش کے اس اقدام پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ بنگلہ دیشی وزیرخارجہ کا بیان اگر درست بھی مان لیا جائے تب بھی اس تبدیلی کی کیا ضرورت تھی۔ بنگلہ دیش اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک میں شامل ہے جس سے بعید نہیں کہ وہ بھی خلیجی ریاستوں کی طرح اسرائیل سے پینگیں بڑھا ئے۔اُمت مسلمہ کے رکن ممالک کاایک ایک کر کے اسرائیل سے تعلقات کی خفیہ واعلانیہ خواہش اور سعی کے بعد ایران اور پاکستان ہی وہ ممالک رہ گئے ہیں جن کا اسرائیل کے حوالے سے مؤقف ٹھوس اور سخت ہے۔ اُمت مسلمہ یہودوہنود مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے کا قرآنی درس بھلا دیں تو پھر ان کو بھی اپنے انجام کیلئے تیار ہونا چاہئے۔
ارکان اسمبلی کی اجلاس میں عدم دلچسپی
خیبر پختونخوا اسمبلی کے تیسرے پارلیمانی سال کے دوران منعقدہ33اجلاسوںمیں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی کثیر تعداد کی غیرحاضری اور عدم دلچسپی اس امر کا واضح مظہر ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے کتنے سنجیدہ اور اپنی ذمہ داریوں سے کس حد تک آگاہ اور دلچسپی رکھنے والے ہیں۔ 145کے ایوان میں 2 ارکان اسمبلی پورے سال کے دوران ایک بھی اجلاس میں شرکت نہ کر سکے جبکہ صرف2ارکان اسمبلی ایسے ہیں جنہوں نے تمام یعنی33اجلاسوں میں شرکت کی جن میں سے ایک مرد رکن کا تعلق تحریک انصاف جبکہ خاتون کا تعلق جمعیت علمائے اسلام سے ہے۔ اراکین صوبائی اسمبلی کا بنیادی کام قانون سازی اورحلقے کے عوام کی نمائندگی ہے جسے چھوڑ کر اراکین اسمبلی بلدیاتی نمائندوں کا کام کرنے کو نہ صرف ترجیح دیتے ہیں بلکہ اسے بنیادی کام اور کار سیاست گردانتے ہیں۔ تحریک انصاف جس مرد رکن اور جے یو آئی کی جس خاتون رکن اسمبلی نے اجلاس میں شرکت یقینی بنائی ہے سپیکر صوبائی اسمبلی کو ان کواعزازی سند سے نوازنا چاہئے اور ان کی پارلیمانی خدمات کا اعتراف کر لینا چاہئے۔ جن دو اراکین اسمبلی نے ایک اجلاس میں بھی شرکت نہ کی ہے اگر ان کو صحت کے حوالے سے کوئی عذر نہیں تو پھر وہ جس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اس جماعت کے قائدین کو ان سے باز پرس کرنی چاہئے۔منتخب اراکین اسمبلی کو اس امر کا احساس ہونا چاہئے کہ عوام نے اُن کو اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کئے بغیر حق نمائندگی نہیں سونپی، عوام نے اُن کو اپنے مسائل کے حل اورقانون سازی کیلئے منتخب کیا ہے جس سے روگردانی عوام سے مذاق اور بد دیانتی ہے۔ اراکین اسمبلی کیلئے بھی کوئی ضابطہ اخلاق ہونا چاہئے جو اسمبلی کو بازیچہ اطفال بنانے سے روکے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ سیاسی جماعتوں کے اکابرین اس مسئلے پر غور کر کے کوئی احسن فیصلہ کرنے کی ذمہ داری پوری کریں گے۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی