قانونی تقاضے مقدم ہوں

تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ اور ان کے زخْی ہونے کے واقعے میں ملوث افراد اور اس حملے کے حوالے سے جامع تحقیقات اور مکمل تفتیش کے بعد سامنے آنے والی صورتحال ہی قابل قبول ہو گی واقعے کے بعد سے جس طرح اس واقعے کو مخمصے کی صورت دی گئی ہے اس سے واقعے میں ملوث فرد یا افراد کے حوالے سے شبہات پیدا ہوا فطری امر ہے ۔ ابتدائی طور پر اس واقعے میں ایک ہی شخص ملوث بتایا گیاجسے موقع پر گرفتار بھی کیا گیا جو اب پولیس کی تحویل میں ہے اس کی تصدیق فائرنگ کرتے ہوئے ملزم کے ہاتھ پر ہاتھ مارنے یا اس کا رخ موڑنے کی سعی کرنے والے نوجوان نے بھی کی ہے کہ ملزم یہی ہے قبل ازیں جلد بازی میں اسی ملزم کی فائرنگ سے بیس فٹ اونچے کنٹینر کی حفاظتی چادر کے پیچھے کھڑے گولی لگنے کا جو دعویٰ کیا گیا تھا اس پر سوالات اٹھ رہے تھے یہ سوالات بھی اٹھے کہ چھ یا نو گولیاں فائر ہونے سے ایک شخص جاں بحق اور چودہ افراد زخمی کیسے ہوئے بہرحال اب جو اطلاع ہے اور اس کی تصدیق پہلے ہی کنٹینر پر کھڑے ڈی جے کر چکے ہیں کہ ایک دوسرا حملہ آور قریبی مکان کی مومٹی یا چھجے سے بندوق سے کنٹینر کو نشانہ بنایا بعض اطلاعات کے مطابق ایک اور حملہ آور کی جانب سے بھی فائر کرنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے واقعے کے جائزہ لینے کے بعد یہ بات خارج ازمکان نظر آتا ہے کہ حملہ آور اکیلا ہی تھا باقی اطلاعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو زمین سے فائر نگ کرنے والے ملزم کا مقصد نشانہ بنانے سے زیادہ توجہ ہٹانے کا تھا تاکہ دوسرے مبینہ حملہ آوروں کو موقع مل سکے بہرحال یہ ایک ا ندازہ ہی ہوسکتا ہے اور اصل صورتحال جامع تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئے گی پنجاب پولیس کی جانب سے ممکن ہے واقعے کی تفصیلات کو حساسیت کے پیش نظر مخفی رکھا جا رہا ہو اور قبل از وقت حقائق کو سامنے لانا تفتیش کے عمل کو متاثر کرنے کے مترادف ہو گا بنا بریں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ابھی تفصیلات ادھوری اور نامکمل ہیں جہاں تک گرفتار ملزم سے تفتیش کا سوال ہے اس سے ابتدائی سوالات اور جوابات کا ممکن ہے کسی حکمت عملی کے تحت ہی افشاء کیا جارہا ہو ورنہ پولیس اس طرح کے بڑے واقعے میں ملوث تو درکنار عام ملزم کا چہرہ بھی چھپانے کی پابند ہے ملزم کا اعتراف اور جرم کی وجوہات کا اعتراف حیرت انگیز ہے جس اعتماد سے ملزم پولیس کی سوالوں کا جواب دیتا ہے وہ بھی قابل غور ہے قطع نظر ان تمام حالات و واقعات کے اس اہم واقعے کا اس قدر سادہ انداز سے ہونا بعید ازقیاس وعقل ہے اس کے پس پردہ ہاتھوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا پنجاب پولیس کے ساتھ خود تحریک انصاف کے رہنمائوں کی جانب سے واقعے کی تحقیقات جائے وقوعہ اور بطور خاص عمران خان کا میڈیکولیگل کرانے میں ارتکاب غفلت سمجھ سے بالاتر ہے یہ سب
کچھ تحقیقات تفتیش اور عدالت میں ملزم یاملزمان پر مقدمہ ثابت کرکے سزا دلوانے کے لئے ضروری اور اہمیت کا حامل ہے ابھی تک اس واقعے کی ایف آئی آر تک درج ہونے کی ا طلاع نہیں حالانکہ واقع کی سنگینی اور قانونی ضرورت دونوں کا تقاضا ہے کہ قانون کے تقاضے پورے ہوں۔ اس واقعے کے بعد جس طرح بنا سوچے سمجھے الزامات کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور جس قسم کی بعض عناصر کی جانب سے دھمکیاں دی جارہی ہیں جن اعلیٰ شخصیات کا نام لیا جارہا ہے یہ سیاست کے تقاضے تو ہوسکتے ہیں اس کے علاوہ ان بیانات اور دھمکیوں کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی ان دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانا اتنا آسان عمل ہوگا اس واقعے کے پس پردہ کرداروں اور ملوث افراد کے مقاصد کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل اس لئے نہیں کہ گزشتہ روز ہی وزیر اعظم چین کا کامیاب دورے سے لوٹے تھے اور سی پیک کے حوالے سے پیش رفت کا پریس کانفرنس میں اعلان متوقع تھا جب بھی اس طرح کے مواقع آئے پاکستان کی ترقی پاکستان کو مشکلات سے نکلنے کا راستہ نظر آنے پر گوادر سے لے کر سوات ‘ گلگت اور وزیرستان تک حالات خراب کرنے والے عناصر حرکت میں آتے رہے ہیں بعید نہیں کہ یہ بھی دشمنوں ہی کی کوئی سازش ہو جس کے ذریعے سیاسی قوتوں کو ہی باہم متصادم کیا جائے اور خدانخواستہ ملک میں خانہ جنگی ہو سیاسی معاملات پر سیاسی قائدین کبھی بھی تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرتے ملکی سیاستدانوں کی جانب سے بیک لفظ اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی جارہی ہے اور کوئی بھی ذی ہوش شخص تشدد کی حمایت نہیں کرسکتا اس واقعے کے آڑ میں عسکری قیادت اور افراد کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کو جذبات کی بجائے ہوش کے ناخن لینے چاہئیں سوچے سمجھے بغیر کسی پر الزام لگانا مناسب نہیں سابق وزیراعظم اور پارٹی چیئرمین عمران خان پر حملے سے قبل وزیرآباد میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے ارد گرد کی صورتحال کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کارواں کی حفاظت کے لیے ضروری اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز)پر پوری طرح سے عمل نہیں کیا گیا۔ایڈوائزری میں محکمہ داخلہ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی تھی کہ پی ٹی آئی چیئرمین کے خطاب کے دوران ان کے ارد گرد بلٹ پروف شیشے لگائے جائیں اور سابق وزیر اعظم کے ارد گرد پولیس اہلکار حفاظتی حصار یقینی بنائیں۔لیکن جب عمران خان پر حملہ کیا گیا تو اس وقت ان کے ارد گرد بظاہر کوئی بلٹ پروف شیشہ اور پولیس کا حصار نہیں تھا۔ یہ پنجاب حکومت کی ناکامی ہے کہ وہ خطرے کے متوقع ہونے یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے بعض عہدیداروں کی جانب سے عین اسی جگہ کی باقاعدہ پیشگی نشاندہی اور انتباہ کے باوجود ملزم پستول لیکر کنٹینر کے اس قدر قریب پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ اس واقعے کو سیاسی یا مذہبی رنگ دینے کامطلب واقعے سے توجہ ہٹانے کے مترادف ہو گا اس پرسیاست کی بجائے یا اسے مذہبی رنگ دینے جیسا کہ ملزم نے اپنے بیان میں اس کی سعی بھی کی ہے اس واقعے کی مکمل تحقیقات اور اس کے پس پردہ و ذمہ دار منصوبہ سازوں کو آگے لایا جائے اور ان پر سازش ثابت کرکے معترف ملزم کے ساتھ ساتھ ان سب کو سزا دلوائی جائے اور یہ واقعہ دیگر واقعات کی طرح پراسرار بن کر نہ رہ جائے۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے