قدرتی آفات سے نمٹنے کی منصوبہ سازی

قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو جن چیلنجز کا سامنا ہے اس سلسلے میں پاکستان نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کو پلان بتا دیا ہے اس ضمن میں آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی، زراعت، فوڈ سکیورٹی پر 30 ارب روپے خرچ کرے گا۔ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان کی ریٹنگ اپ گریڈ کردی ہے، عالمی ادارے کے مطابق پاکستان کو کئی قدرتی آفات کے خطرات کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان ایک ایکشن پلان پر کام کر رہا ہے جس کے تحت اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام سے پاکستان مدد لے گا، اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ پلان کے تحت پاکستان قدرتی آفات کے ممکنہ شکار کمزور شعبوں کو تحفظ فراہم کرے گا۔ جہاں تک موسمیاتی تبدیلیوں کا تعلق ہے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو گلوبل وارمنگ چیلنجز کا سامنا ہے، صنعتی ممالک اوزون لیئر کو جس قدر نقصان پہنچا رہے ہیں وہ ایک طرف جس کے نتیجہ میں بڑے بڑے گلیشیئر پگھل کر دنیا میں سیلاب کی صورتحال کو خطرنانک سطح تک لے آئے ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان پر ہمسایہ بھارت آبی جارحیت مسلط کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور نہ صرف پاکستان کے حصے کے دریائوں پر ناجائز تصرف کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کے پانی کو بڑے چھوٹے ڈیمز تعمیر کرکے روک کر پاکستان کو خشک سالی کا نشانہ بنا رہا ہے بلکہ جب ہمالیاتی کوہ سے آنے والے پانی میں گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے اضافہ ہو جاتا ہے تو وہ انہی ڈیمز کے سپل ویز کھول کر اضافی پانی راتوں رات پاکستان کی جانب روانہ کرکے پنجاب کے دریائوں میں سیلاب اور طغیانی کا باعث بنا دیتا ہے جس سے نہ صرف پاکستان میں کھڑی لاکھوں ایکڑ فصلوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے بلکہ بستیوں کی بستیاں ویران ہو جاتی ہیں، ہزاروں گھر سیلاب کی نذر ہوجاتے ہیں، بڑی تعداد میں انسانی جانوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے، لاکھوں جانور مرجاتے ہیں اور قحط کی سی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے، ان مسائل کے علاوہ خود اپنے ہاتھوں ہم اپنی تباہی کا سامان یوں کرتے ہیں کہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے اپنے لئے عذاب کو دعوت دیتے ہیں، جنگلات کی غیر قانونی یا قانونی کٹائی سے ہمارا قدرتی ماحوال بری طرح متاثر ہوتا ہے اور ماحول میں جو بدلائو آتا ہے اس سے گلیشیئر زیادہ مقدار میں پگھل کر قدرتی ماحول پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ موسموں کی تبدیلی سے جو نقصان ہم خود پیدا کرتے ہیں ان کے تدراک کیلئے جن اقدامات کی ضرورت ہے جب تک ہم اس حوالے سے سنجیدگی اختیار نہیں کریں گے ہمارے مسائل حل ہونا تو کجا الٹا اس کے مزید نقصانات ہماری مشکلات میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ سابق عمران حکومت نے پہلے بلین ٹری اور پھر ٹریلین ٹری منصوبے شروع کرکے ماحول کو فائدہ پہنچانے کا پروگرام بنایا ایسے مزید پروگراموں کی ضرورت تو ہے تاہم جس طرح محولہ منصوبوں پر مبینہ بدعنوانی کے الزام لگ رہے ہیں ان سے احتراز کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے مسائل پر قابو پا سکیں۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس