2 299

قدم قدم پہ نئی داستاں سناتے لوگ

امریکی صدر ٹرمپ کے حوالے سے کورونا کی صورتحال کو واقفان حال ایک ڈرامہ کے سوا کچھ بھی سمجھنے سے انکاری ہیں جس کا مطلب اور مقصد مبینہ طور پر امریکی صدارتی انتخابات میں ان کیلئے ”ہمدردیاں” سمیٹنے کے سوا کچھ بھی نہیں حالانکہ صدرٹرمپ تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ صدارتی انتخاب ہار بھی گئے تو نتائج تسلیم کرنے کیلئے وہ تیار نہیں ہوں گے، تاہم دنیا بھر میں ایک بار پھر اس بیماری کی دوسری لہر کے حوالے سے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں، ادھر ایک سوشل میڈیا چینل نے اپنی ایک ویڈیو میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ یہ سب کچھ دراصل چین کیخلاف اقتصادی پابندیاں لگانے کے سلسلے میں تیاریوں کا حصہ ہے۔ محولہ چینل کے دعوے کے مطابق امریکہ چین کی اقتصادی برتری کو زک پہنچانے کیلئے مبینہ طور پر اسرائیل اور بھارت کیساتھ مل کر کورونا کے دوبارہ عود کر آنے کی صورت میں چین کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اب تک دنیا بھر کو ہونے والے نقصانات کی ایک فہرست چین کو پکڑوا کر ”تاوان” ادا کرنے کا مطالبہ کرے گا اور انکار کی صورت میں اس پر اقتصادی پابندیاں لگا دے گا۔ دوسری جانب چین کی اقتصادی، صنعتی، تجارتی پیش رفت کے آگے بند باندھنے کیلئے سی پیک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا اور چین بھارت کی حالیہ چپقلش (لداخ میں چھڑپیں) اسی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ امریکہ نے بھارت کو مدد دینے کیلئے چین کیخلاف ہر ممکنہ جنگی مدد کی دھمکی بھی دے رکھی ہے، اگرچہ چین نے کورونا کے حوالے سے امریکی الزامات کو متعدد مواقع پر رد کرتے ہوئے کورونا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ان امریکی فوجیوں کو قرار دیا جو امریکہ چین مشترکہ فوجی مشقوں میں حصہ لینے چین گئے تھے، بہرحال یہ جو کورونا کی ایک اور لہر کی باتیں کی جارہی ہیں اس کا صدر ٹرمپ کو صدارتی انتخاب میں کامیابی یا ناکامی سے کوئی تعلق ہو نہ ہو، کم ازکم ہمارے ہاں مقتدر حلقوں کیلئے ایسی خبریں بلی کے بھاگوں چھیکا ٹوٹنے سے تشبیہ ضرور دی جا سکتی ہے کیونکہ حزب اختلاف کی گیارہ جماعتوں کے اکٹھ اور ان کی حالیہ سرگرمیوں سے مقتدر حلقے جس طرح اپنے اوپر دباؤ محسوس کر رہے ہیں ان سے نمٹنے کیلئے اگرچہ فی الوقت غداریوں اور ملک دشمنیوں کے سرٹیفکیٹ بانٹے جارہے ہیں اور ساتھ ہی یک طرفہ پروپیگنڈے کے ذریعے ”کنٹینری سیاست” کو تازہ کیا جارہا ہے تاہم اب عوام اس قسم کے ڈبلیو ڈبلیو ای ہینڈی کیپڈ مقابلوں کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اس لئے وہ اس جھانسے میں آنے کو تیار نہیں ہیں، آپ نے عالمی ریسلنگ تنظیم یعنی ڈبلیو ڈبلیو ای مقابلوں کے دوران ایسے میچ ضرور دیکھے ہوں گے جن میں ایک پہلوان کا ہاتھ پشت کی جانب باندھ دیا جاتا ہے جبکہ مقابلہ میں ایک اور کبھی کبھی دو پہلوان ہوتے ہیں تو ان دنوں سابق وزیراعظم نوازشریف کے بیانات کے بعد جس طرح مختلف چینلز کو پی ڈی ایم کے رہنماؤں کی سرگرمیوں کو محدود انداز میں کنٹرولڈ کرتے ہوئے خبریں چلانے پر مجبور کیا جارہا ہے بلکہ بعض چینلز کی نشریات بھی بند کی جا چکی ہیں اور دوسری جانب سرکار کے میڈیا ایڈوائزر، بعض وزراء اور سرکاری میڈیا فوج ظفر موج نہ صرف ٹی وی چینلز بلکہ سوشل میڈیا پر حزب اختلاف کے مقابلے میں لنگر لنگوٹ کس کر اُتر آئے ہیں اس کے باوجود پی ڈی ایم کے بیانئے کا ”خوف” کم نہیں ہو رہا ہے اس صورتحال پر کسی شاعر نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ
قدم قدم پہ نئی داستاں سناتے لوگ
قدم قدم پہ کئی بار جھوٹ بولتے ہیں
اب اسے حزب اختلاف کی شومئی قسمت سمجھا جائے یا پھر مقتدروں کی خوش قسمتی قرار دیا جائے کہ ایک بار پھر کورونا کے پھیلاؤ کی خبریں آنے لگی ہیں اور بقول شاعر جب کچھ نہ بن سکا تو مرا دل بنا دیا یعنی اگر سرکاری حلقوں کے حزب اختلاف کیخلاف ڈبلیو ڈبلیو ای ہینڈی کیپڈ مقابلوں کے باوجود پی ڈی ایم کے بیانئے کی گونج نہ تھم سکی تو ”کورونا” کی نئی لہر کے طفیل ایک بار پھر لاک ڈاؤن کی کیفت سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جاسکے گا اور اگر لاک ڈاؤن لگ گیا تو کہاں کے جلسے، کہاں کی ریلیاں؟ البتہ ایس او پیز کے تحت محدود انداز میں پریس کانفرنس منعقد کی جا سکیں گی، مگر ان کے نشر ہونے کی ”ضمانت” کون دے گا تاہم یہ جو ان دنوں سوشل میڈیا پر بعض بے چارے بیروزگاروں نے ذاتی چینلز یوٹیوب پر چلانا شروع کئے ہیں اور ان پر تصروں وغیرہ کی بھرمار ہورہی ہے ان کے ذریعے کچھ نہ کچھ خبریں تبصرے لوگوں تک ضرور پہنچ جاتے ہیں، حالانکہ گزشتہ دنوں ایسے یوٹیوب چینلوں کو بھی پیمرا کے ذریعے چتاؤنی دی گئی کہ وہ ان سرگرمیوں کو پیمرا کے قاعدے قوانین کے تحت لاکر ریگولرائز کر دیں’ جس کیلئے رجسٹریشن فیس بھی لاکھوں میں تھی’ مگر اب تک کسی نے ان ہدایات پر بھی کان دھرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کیونکہ یوٹیوب پر پیمرا کا بس نہیں چلتا کہ اسے کنٹرول کر سکے۔ اس لئے یار لوگ مزے سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نوابزادہ نصراللہ مرحوم نے کیا خوب کہا تھا
غم نہیں گر لب اظہار پہ پابندی ہے
خامشی کو بھی تو اک طرز نوا کہتے ہیں

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟