4 101

قربان علی سالک نے جانے کب اور کیوں کہا تھا کہ

کتنا آسان تھا علاج مرا

تنگ دستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
انسان اس ہی صورت میں تندرست وتوانا رہ سکتا ہے جب نصیب دشمناں وہ کسی بیماری کا شکار ہوکر زندہ درگور نہ ہوجائے، بے شمار قسمیں ہیں بیماریوں کی، جن میں بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو مریض کو تندرست وتوانا لوگوں سے کاٹ کر ان کا حقہ پانی بند کر دیتی ہیں اور صحت والے لوگ مریض کے پاس جانے سے کترانے لگتے ہیں کہ مبادا وہ بیماری انہیں نہ لگ جائے۔ ایک مریض سے دوسرے مریض میں منتقل ہونے والی بیماریوں کو متعدی یا چھوت کے امراض کہا جاتا ہے اور کسی بھی متعدی بیماری میں مبتلاء مریض کو چھونے یا اس کے پاس جانے سے گریز کیا جاتا ہے، متعدی بیماریوں میں سے ‘کرونا’ نامی وائرس سے پھیلنے والی بیماری نے ساری دنیا کو جس تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس کی تباہ کاریاں اس قدر عروج پر ہیں کہ اس کا شکار ہونے والوں کے متعلق خبریں دینے والے یا اس موضوع پر بات کرنے والے برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ کو ”کرونا نامہ” کہنے کو دل کرنے لگتا ہے۔
اہل ہوس تو ہوس میں ہوئے ذلیل
وہ بھی ہوئے خراب، محبت جنہوں نے کی
ہم اور ہم جیسے بہت سے لکھنے والے ‘کرونا’ نامی موذی، خطرناک اور جان لیوا بیماری کے متعلق اتنا کچھ لکھ چکے ہیں کہ اس موضوع پر مزید کچھ کہنے کی گنجائش باقی رہی ہے اور نہ ہی لکھتے رہنے کی سکت، سو آج ہم جس بیماری کے متعلق آپ کو جان کاری یا آگاہی دے رہے ہیں اگرچہ وہ متعدی بیماری نہیں، لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ اس بیماری کو متعدی سمجھ کر مریض سے دور بھاگتے پھرتے ہیں، یہ جلدی بیماری ہے جو انسان کی جلد میں ہارمون کی کمی زیادتی یا بے اعتدالی کے باعث رونما ہوتی ہے اور اسے اُردو یا اس قبیل کی دیگر زبانوں میں ‘برص’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ پشتو زبان میں اس بیماری میں مبتلاء ہونے والے کو ”برگے” کہہ کر پکارتے ہیں۔ ہم نے بیٹھے بٹھائے اس بیماری کے متعلق کیوں لکھنا شروع کردیا، آپ اگر یہ سوال پوچھ رہے ہیں تو ہم آپ کو یاد دلا دیں کہ آج جون کے مہینے کی 13تاریخ ہے اور آج پاکستان سمیت ساری دنیا میں ‘برص’ کے متعلق آگاہی کا عالمی دن منایا جارہا ہے اور برص کے متعلق آگاہی کا عالمی دن منانے کی اقوام عالم کو اس لئے سوجھی کہ ‘برص’ کے متعلق دنیا والے اس غلط فہمی کا شکار ہیں یہ کرونا کے قبیل کی کوئی متعدی بیماری ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں، یہ بات متعدد کتابوں کے مصنف، بہت زیادہ پڑھے لکھے اور ایک مؤجد کی حیثیت سے وکی پیڈیا میں متعارف ہونے والے کم وبیش پچاسی برس کے میڈیکل سائنٹسٹ ڈاکٹر جمیل ایک ٹیلی فون کال کے ذریعہ رابطہ کرکے بتارہے تھے، مجھے تو حیرت اس بات کی ہے کہ آپ جب بھی کسی علمی یا ادبی موضوع پر بات کرنا چاہیں یا کسی لفظ کے معنی یا اس کے لب ولہجہ کے متعلق جاننا چاہیں راقم السطور کی کم علمی کو کریدنے کیلئے ٹیلی فون کر بیٹھتے ہیں، نجانے آج ان کے ذہن میں یہ بات کہاں سے آن ٹپکی کہ پشاور اور مردان والوں کو عید یا رمضان کا چاند اسلئے پہلے نظر آتا ہے کہ وہ کراچی کے آسمان سے باتیں کرنے والے اس حبیب بنک پلازہ سے بھی بہت اونچائی پر ہیں جو سطح سمندر کے کنارے واقع ہے، کہنے لگے کہ کبھی موقع ملے تو میری اس بات کو اپنے کالم میں بیان کر دیجئے گا، میں نے عرض کی کہ عید کے بعد مہندی کو دیواروں پر تھوپا جاتا ہے، سو آج کل ایسی باتوں کو دہرانے کی ضرورت نہیں رہی، آپ مجھے برص کے متعلق جان کاری دیں تاکہ میں ایک تجربہ کار اور سن رسیدہ ڈاکٹر کی رائے کو اپنے قارئین کیساتھ شیئر کرسکوں، میری اس بات کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ‘برص’ کی بیماری اتنی خطرناک نہیں جتنی اسے سمجھا جاتا ہے، لوگ برص کو کوڑھ یا جزام سمجھ کر مریض سے دور بھاگنے لگتے ہیں اور یوں اس کا مریض نفسیاتی اذیت کا شکار ہوجاتا ہے، انہوں نے کہا کہ پہلے پہل یہ بیماری جلد کے کسی حصہ پر ایک چھوٹے سے سفید داغ کی صورت دکھائی دیتی ہے اور پھر پھیلتے پھیلتے جلد کے بہت سارے حصہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔کیا پلاسٹک سرجری میں اس مرض کا کوئی علاج ہے، اس سوال کے جواب میں انہوں نے ایک مایہ ناز ڈاکٹر کا نام لیا اور اس سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا، مگرمیں اس گستاخی کی جرأت نہ کرسکا
وہ عیادت کو تو آیا تھا مگر جاتے ہوئے
اپنی تصویریں بھی کمرے سے اُٹھا کر لے گیا
یہ سوچ کر ہم نے اسی بات پر اکتفا کرلیا کہ آج کے دن اگر ہم نے اپنے قارئین کو صرف اتنا بھی بتا دیا کہ برص ایک متعدی مرض نہیں اور برص کے مریضوں سے دور بھاگنے والے ان کے احساسات کو کچلنے کا جرم کر رہے ہوتے ہیں تو شائد ہم ماہرین طب کے سورج کو اپنا سا چراغ دکھانے میں کامیاب نظر آنے لگیں
پوچھ لیتے وہ مزاج مرا
کتنا آسان تھا علاج مرا

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات