قربانی

مہنگائی کے اس دور میں اولاًقربانی کی توفیق اور دوم اس کے لئے اسباب کا برابر ہونا یقینا مالک کائنات کی مہربانی ہے جن لوگوں کو قربانی کی تمنا تھی اور وہ قربانی نہ کر سکے ان کو بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ دلوں کا حال جاننے والے نے ان کے دل کی آواز خیال آتے ہی سنی ہو گی اور ان کی نیت و تمنا کا صلہ بھی خوشنودگی کی صورت میں عطاء ہوئی ہو گی ویسے بھی ہم جس ذات عالی کے نام پر قربانی کرتے ہیں ان کو نہ تو لحم کی کوئی حاجت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی اور چیز کی ان کو تقویٰ ہی مطلوب ہوتی ہے اب تقویٰ قربانی کرکے بھی اور اس کی تمنا کرنے پرہی دونوں ہی طرح سے حاصل ہونا بعید نہیں پھر نیت کا بھی معاملہ اہم ترین امر ہے کہ قربانی کی نیت بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل امر ہے نیت کے مطابق ہی اجر کا تعین ہوتا ہے گزشتہ کالم میں بھی میں نے اس امر کا تذکرہ کیا تھا کہ بہت سے لوگ قربانی کرنے کی بجائے اس کی رقم کی تقسیم کی عاجلانہ تجویز دیتے ہیں ایسے لوگوں کی نیت خواہ کچھ بھی ہو مگر شرعی طور پر ان کی سوچ قابل قبول نہیں اس تجویز پر اب تک سخت ردعمل ہی سامنے آتا رہا ہے جو اپنی جگہ لیکن گزشتہ خطبہ جمعہ میں ایک نوجوان عالم دین نے اس بارے ایک ایسی درمیانی بات کی جو جہاں ایک طرف شرعی تقاضوں کے مطابق بات تھی تو دسری جانب اس طرح کی تجویز کا حل بھی تھا انہوں نے بڑی اچھی بات کی کہ جولوگ دس بیس لاکھ روپے کا جانور خرید کر ایک ہی شخص پہلے دوسرے اور تیسرے دن کئی جانور ذبح کرتا ہے اگر وہ ایک اوسط درجے کا جانور بھلے بیل ہی کیوں نہ ہو قربان کرے تو اس پر دو تین لاکھ روپے ہی لگیں گے اس سے قربانی کا فریضہ ادا ہوگا اورباقی رقم نادار افراد میں تقسیم کی جائے یہ تو ہم خرما وہم ثواب کے مصداق ہوگا ۔ مجھے تو یہ ترکیب بڑی مناسب لگی کہ حقوق مالک کائنات کی بھی اس کی روح کے مطابق ادائیگی ہو گی اور مخلوق خدا کی بھی مدد ہو گئی۔اس میں نیت بھی نیکی کی ہوئی اور معترضین کو بھی شافی جواب مل گیا اس تجویز کو سن کر میں سوچنے لگی اور ادھر ادھر نظر دوڑائی تو مجھے لگا کہ بعض لوگوں نے تو قربانی کو بھی حقیقی قربانی نہیں بلکہ ایک سماجی حیثیت ظاہر کرنے کا موقع بنادیا ہے باقاعدہ گلی محلوں میں جانوروں کی نمائش سجتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی مہنگے سے مہنگے جانور خریدنے کی مسابقت میں جانے انجانے داخل ہوگئے ہیںسادگی اور خلوص نیت کے ساتھ فریضے کی ادائیگی پر نمائش غالب آنے لگی ہے بہرحال یہ ایک عام خیال تھا ضروری نہیں کہ ہر کسی پر پوری اترے البتہ پوری طرح لغوبھی نہیں اس سے انکار کی گنجائش نہیں کہ واقعی بعض ناپسندیدہ قسم کی حرکات ہوتی ہیں اس سے بھی ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ بڑے بڑے کارخانے داروں کے ملازمین دو دو تین تین ماہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر مطالبات اور احتجاج کرتے ہیں مگر بجائے اس کے کہ ان کو تنخواہوں کی ادئیگی کے صاحب لوگ دو دو تین تین چار چارتینوں دن قربانی کرتے ہیں ان کو یہ ذرا خیال نہیں آتا کہ مزدور کو پسینہ خشک ہونے سے پہلے معاوضہ کی ادائیگی کا باقاعدہ حکم ہے صرف یہی نہیں بعض لوگ اپنے ملازمین سے تو بیگار لینے کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور جب بات ان کی ضروریات کی آتی ہے تو ان کو پرواہ ہی نہیں مگر عید الاضحی پر چھ سات جانور قربان کریں گے قربانی اچھی بات ہے مگراپنے کارکنوں کی ضروریات و احتیاجات کا خیال رکھنا اور ان کو مراعات و سہولیات دینا بھی قربانی کی طرح ہی نیک کام ہے جو سارا سال بغیر کسی معین دن کے ہو سکتا ہے ایسا نہ کرکے ایک دن آٹھ دس جانور ذبح کرکے نیکی اورتقویٰ کے حصول کا یقین اپنے آپ کودلاسہ دینے کا مصداق ہی ٹھہرے گا۔آخر ہم غور کیوں نہیں کرتے غور کریں تو جانوروں کی قربانی آسان اور حقوق العباد کی ادائیگی مشکل لگے گی پھر بھی قربانی کی روح یہ نہیں کہ جانور قربان کردی اوربری الذمہ ہوگئے جانور کی قربانی تو محض متوجہ ہونے کا عمل ہے جس کی روح یہ ہے کہ سارا سال اس دین ابراہیمی کے اصولوں پر عمل پیراہو ا جائے خود دین حنیف حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر دیگر پیغمبروں سے ہوتا ہوا خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ کر مکمل ہوا اور اب رہتی دنیا تک اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہماری ذمہ داری ہے لیکن افسوس قربانی کے دن اور عید الاضحی کی مبارک ساعتوں میں ہی ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ صفائی ستھرائی پڑوسی کا خیال اور ان کوتکلیف دینے سے حتی المقدور خود کو بچانا بھی دینی فریضہ اور شعائراسلام میں سے ہے مگر آپ نے دیکھا ہو گا کہ کم ہی لوگوں نے جانور ذبح کرنے کے بعد گلی محلے کو آلودہ کرنے سے اجتناب کیا ہو گا کتنے لڑائی جھگڑے محلہ داروں میں صرف اس بنا پر ہوتے ہیں کہ جانوروں کی باقیات ان کے گھر کے سامنے پھینکی گئیں وغیرہ وغیرہ پھر قربانی کے گوشت کی تقسیم کو ہی لے لیں کوئی گھرایسا نہ ہو گا کہ اس موقع پر فریج اور فریزر کی صفائی کرکے خالی نہ کیا ہوگا اور قربانی کے گوشت تقسیم کم اور سٹور زیادہ کیا گیا ہو گا میں خود جب اپنے کردار و عمل کا جائزہ لیتی ہوں تو اس غلطی سے میں بھی مبرا نہیں یہ ایک مزاج بن گیا ہے کہ قربانی کرکے گوشت زیادہ سے زیادہ سٹور کرنے کی کوشش کی جائے پھر گوشت کی تقسیم کے عمل کو بھی ہم نے سماجی تعلقات کا ذریعہ بنا لیا ہے سوال یہ ہے کہ جس ذات باری تعالیٰ کی خوشنودی لئے ہم قربانی کرنے کے دعویدار ہیں ان کے حصے کی قربانی کے جذبے سے تقسیم آخر کیوں نہیںکرتے کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہماری ہوس ہمارے نیک جذبوں پر بری طرح غالب رہتی ہے اگر ایسا نہیں تو مالک زمین و آسمان کا شکر ادا کیجئے اور اگر ایسا ہے توپھر سوچئے کہ ہماری قربانی میں اخلاص نیت کی کمی کیوں ہوئی کوشش کیجئے اس سے نکلئے اب بھی وقت ہے کہ اپنے فریج ‘ فریزز کو کھولئے اور گوشت ناداروں کو پہنچانے کی ذمہ داری نبھایئے اڑس پڑوس اور عزیز و اقارب میں اگر بالفرض محال کوئی نہ ہوں تو آس پاس کے علاقوں میں لے جائیں اور تقسیم کریں کسی چوک اور بازار میں کھڑے ہوں اور جوبھی مستحق لگے اس کی نذر کیجئے زیادہ نہیں چار پانچ پیکٹ ہی ایسا کرکے دیکھیں کہ یہ کس طرح کا سکون بخش عمل ہے یہ جو سارا سال جولوگ گوشت کھا سکتے ہیں ان کے نزدیک تو گوشت کی قدر کم ہو گی لیکن جو لوگ صرف قربانی کے دنوں ہی میں گوشت چکھ سکتے ہیں ان کے لئے اس کی اہمیت دوچند ہو گی پھر ان کے لئے ضروری بھی ہے کہ وہ سارا سال گوشت سے محروم ہوکر جس جسمانی ضرورت کو پورا کرنے سے محروم چلے آرہے ہوں ان کی یہ ضرورت پوری کرکے انکی صحت کو بحال رکھنے میں مدد دی جائے یہ کس قدر کار ثواب ہے اس کا اندازہ ہی کیجئے قربانی ہے ہی اپنے احتیاج اور اپنی ضرورت ہونے کے باوجود کچھ ایثار کرنے کا نام ہے ایسا سارا سال ہونا چاہئے کم ازکم خا ص طور پر قربانی کے دنوں میں اس کی طرف بطور خاص متوجہ ہواجائے قربانی کی روح قربانی کا تقاضا کرتی ہے صرف گوشت کی نہیں ہر قسم کی قربانی کی یہاں تک کہ جب وقت آئے تو انسان کو اپنے جان کی بھی قربانی دینا پڑے تو گریز نہ کیا جائے جب قربانی کا جذبہ اور معیار اس درجے کا ہو جائے تب قربانی کے حقیقی معنوں سے روشناس ہوا جا سکے گا اوریقینا قابل قبول قربانی بھی یہی ہو گی۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے