قسطوں میں موت کی خواہش

ہم اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ ہمارے ہاں کی مروجہ سیاست میں ہر حکومت اور اس کی حزب مخالف دونوں سیاسی سماجی اور معاشی صورتحال پر بات کرنے کی بجائے نفرت کی سیاست کو بڑھاوا دیتے ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام پوراسچ نہیں جان پاتے ، اب یہ پوچھ لیجے گا کہ کیا رعایا کو عوام کا درجہ مل گیا ؟ معاف کیجئے گا درجہ کوئی نہیں دیتا یہ حاصل کرنا پڑتا ہے مجھ ایسے طالبعلم کو پتہ نہیں کیوں یہ لگتا ہے کہ ہمارے چار اور بستی رعایا کو عوام بننے سے کوئی دلچسپی نہیں غالبا وہ عوام کے فرائض سے بچنا چاہتی ہے خیر اس پہ پھر بات کریں گے فی الوقت تو صورتحال یہ ہے کہ پچھلے دور میں اس وقت کی اپوزیشن کے رہنماوں نے اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کی قانون پر جو ”پٹ سیاپا”ڈالا تھا اور لوگوں سے کہا تھا کہ اگر ہم اقتدار میں آئے تو اس قانون کو ختم کردیں گے اب وہ ماضی کے برعکس باتیں کررہے ہیں صاف سیدھی بات یہی ہے کہ”ہم ہوئے یا وہ ہوئے دونوں آئی ایم ایف کی زلفوں کے اسیر ہوئے”یہ اسیری کب ختم ہوگی اس سوال پر ذہن کھپانے کی ضرورت نہیں ویسے بھی آجکل روزے چل رہے ہیں اور روزوں میں صرف دعائیں مانگی جاتی ہیں چلیں اب کچھ باتیں آئی ایم ایف سے جاری حالیہ مذاکرات کے حوالے سے موصولہ کھٹی میٹھی خبروں اور”اطلاعات”پر کرلیتے ہیں تاکہ دلپشوری کا کچھ سامان ہوجائے ‘اب دیکھیں سمجھیں اپنے رسک پر کیونکہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے والے پاکستانی وفد کے سربراہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں’عالمی مالیاتی ادارے کا مشن اگلے ہفتے پاکستان آئے گا’ مذاکرات کے بعد مالیاتی ادارے کا بورڈ قسط کی منظوری دے گا۔ ان کے بقول آئی ایم ایف کے ذمہ داران سے حالیہ ملاقات میں عالمی مالیاتی ادارے نے 6ارب ڈالر کے قرضے پروگرام میں2ارب ڈالر کے اضافے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ نیز یہ بھی کہ ستمبر میں اختتام پذیر ہونے والے اس پروگرام میں ایک سال کی توسیع بھی کردی جائے گی۔ اسی عرصہ میں اتحادی حکومت میں شامل(ن)لیگ کے بعض رہنمائوں نے جو قبل ازیں سابق دور میں پٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے اسے عوام پر خودکش حملہ قرار دیتے تھے اب یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ پٹرولیم اور بجلی پر دی گئی سبسڈی غیرذمہ دارانہ فیصلہ تھا اور یہ کہ پٹرول و بجلی کی قیمت بڑھانا ناگزیر ہے۔ یہ بجا کہ تکنیکی سطح پر بات چیت جو اسی ہفتے شروع ہونی ہے سے قبل فیصلہ سازی نہیں ہوگی مگر عوام یہ ضرور جاننا چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف اور مذاکراتی وفد کے درمیان کن پانچ نکات پر اتفاق ہوا ہے اور یہ بھی کہ ایک سال کی توسیعی مدت اور2ارب ڈالر اضافی قرضہ دینے پر رضامندی کے بدلے میں آئی ایم ایف ہم سے مزید کیا چاہتا ہے؟ وزیر خزانہ پاکستان سے روانگی سے قبل تک اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے قانون کو ملک کے لئے زہر قاتل قرار دے رہے تھے اب کہہ رہے ہیں کہ جو ہوگیا اس پر ہم عمل کے پابند ہیں۔ اگر یہ بات مان لی جائے کہ گاڑی رکھنے والے کو پٹرولیم سبسڈی نہیں ملنی چاہیے تو کیا اس امر کو مدنظر نہیں رکھا جانا چاہئے کہ لگ بھگ40فیصد گاڑیاں(گھریلو اور دفتری استعمال کی)کاریں وغیرہ بینکوں سے اقساط پر حاصل کی ہوئی ہیں۔ ہماری دانست میں پالیسی اور حکمت عملی بنائے بغیر دیئے جانے والے بیانات نہ صرف غیرضروری ہیں بلکہ ان سے لوگوں کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگا۔ وزیر خزانہ عوام کو بتائیں کہ توسیعی پروگرام کن شرائط پر ملے گا۔ ہم اسے بدقسمتی ہی کہیں گے کہ ماضی یا اب آئی ایم ایف سے مذاکرت کرنے والے پاکستانی وفد نے اپنی ملکی صورتحال’ لوگوں کی قوت خرید اور دوسرے مسائل و وسائل کو کبھی بھی مدنظر نہیں رکھا۔ ہمارے مذاکرات کاروں کی پہلی اور آخری ترجیح ہمیشہ قرضوں کا حصول رہی اور قرضے کی شرائط کا طوق تو عوام کے گلے میں پڑنا ہے پالیسی سازوں یا فیصلہ پر عمل کروانے والی بابوشاہی کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ پٹرول کتنے روپے لیٹر ہے اور بجلی کتنے روپے یونٹ ہے ان کے دال دلیئے کی تو حکومت ذمہ دار ہوتی ہے ، پھر بھی عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آئی ایم ایف نے جن بجٹ اصلاحات کی ہدایت کی ہے وہ کیا ہیں۔ ادھر آئی ایم ایف متقاضی ہے کہ گریجویٹی پنشن کے ساتھ سرکاری ملازمت کی فراہمی کو ایڈہاک ملازمتوں کی پالیسی میں تبدیل کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکمران اتحاد کے ذمہ داران اب وہی کچھ کرنے پر کیوں آمادہ ہیں جو دو ماہ قبل تک ان کے نزدیک عوام پر خودکش حملے کے مترادف تھا؟ یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ خودانحصاری اور زرعی معیشت کو مستحکم بنانے کی پالیسی اپنائے بغیر اصلاح احوال کی صورت نہیں بن سکتی۔ حالیہ مذاکرات کا اعلامیہ ہی حقیقت حال کو واضح کرے گا مگر اب تک اس حوالے سے ملنے والی خبروں میں سے خیر کا پہلو تلاش کرنا ہمارے خیال میں ازبس مشکل ہے۔ اس کی صاف سیدھی وجہ یہی ہے کہ ہمارے پالیسی ساز ہوں یا حکمران طبقات دونوں نے کبھی عوام کے مفادات کو مدنظر رکھا نہ عوام کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس کی۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ پچھلے ساڑھے تین برس کی سیاسی ہڑبونگ میں الزام تراشی کی جگالی میں اتنا جھوٹ بولا گیا ہے کہ اب سچ پر بھی اعتبار مشکل ہوگیا ہے۔ بہرطور اس امر پر دو آرا ہرگز نہیں کہ ارباب اختیار عوام کو قسطوں میں مارنے کی بجائے ان کی زندگی کا سامان پیدا کریں’ ایسی پالیسیاں ہرگز نہ بنائی جائیں نہ شرائط گلے ڈالی جائیں جن سے نچلے طبقات کی زندگی مزید اجیرن ہوجائے۔ اچھا کیا رعایا نامی عوام کی زندگی کے اجیرن ہونے سے صاحبان اقتدار کو کوئی فرق پڑتا ہے ؟ ہم نے تو جب بھی اس سوال پر غور کیا ہمیں کسی شاعر کی آواز سنائی دی”رعایا کا جہاں اور ہے حاکموں کا جہاں اور”معاف کیجئے گا ڈی ایچ اے اور اس طرح کی درجہ اول والی سوسائٹیوں کا جہاں اور ہوتا ہے اور پرانے گلی محلوں کا جہاں اور۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں