قلت یا ذخیرہ اندوزی

پشاور میں مختلف پٹرول پمپس پر پیٹرول کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ کی بازگشت کے بعد پٹرول کی فروخت روک دی گئی ہے جن پمپس پر دستیاب پٹرول ہے وہاں لمبی لمبی قطاریں لگنے سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے شہریوں کو قطاروں میں کھڑے ہو کر پٹرول خریدنا پڑرہا ہے دوسری جانب پیٹرول پمپ مالکان کا کہنا ہے کہ پٹرولیم ڈیلرز کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی ترسیل کم ہو رہی ہے۔اس کی وجوہات کیا ہیں اوراس ضمن میں حکومت کیا اقدامات اٹھا رہی ہے اس حوالے سے کچھ نہیںکہ گیا جواپنی جگہ قابل توجہ امر ہے بہرحال صورتحال واضح نہیں بلکہ ہرفریق کا موقف یکطرفہ نظر آتا ہے قبل ازیں بھی یکم فروری سے قبل بھی خیبر پختونخوا کے بیشتر شہروں میں پیٹرول کی مصنوعی قلت پیدا ہوگئی تھی تاہم وزیر خزانہ کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اعلان کے فوری بعد ہی یہ مصنوعی قلت ختم ہوگئی تھی۔ وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے یقین دلایا ہے کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں15فروری سے پہلے تبدیل نہیں ہوں گی اور ساتھ ہی وارننگ دی ہے کہ پٹرول نہ بیچنے یا مہنگا بیچنے والوں کے لائسنس منسوخ کردیئے جائیں گے۔ مصدق ملک کا کہنا ہے کہ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی کوئی قلت نہیں ہے، ملک میں20روز کے پیٹرول اور29روز کے ڈیزل کا اسٹاک موجود ہے۔تاہم حکومتی یقین دہانی اور وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک کی دھمکی کے باوجود پیٹرول اور ڈیزل کے ذخیرہ اندوزوں نے مزید کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔دوسری طرف آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی(اوگرا)نے ملک کے کئی شہروں میں پیٹرول اور ڈیزل کے مصنوعی بحران پر فوری کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ہمارے ہاں صرف پٹرولیم مصنوعات ہی کے شعبے میں نہیں بلکہ آٹا اور دیگر ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزوی اور مصنوعی قلت اور گرانی کی ایک بڑی وجہ ذخیرہ اندوزوی اور مافیا کے ہتھکنڈے ہیں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث متوقع ناجائز منافع کی لالچ اپنی جگہ بعض اطلاعات کے مطابق پٹرولیم کمپنیوں کوادائیگی کے ضمن میں مشکلات کا سامنا ہونے کے باعث تیل منگوانے کے عمل میں تعطل کا خطرہ ہے یہاں تک کہا جاتا ہے کہ بندر گاہ پر تیل کے جہازوں کی کلیرنس میں ڈالر کی ناپیدگی کے باعث تعطل کا سامنا ہے بہرحال طرح طرح کی افواہیں گھڑ کر ملک میں مصنوعی قلت کا جواز پیش کیا جارہا ہے جس سے عوام کا متاثر ہونا فطری امر ہے عوامی سطح پر اس طرح کی افواہوں سے اثر لے کر معمول کے مطابق پٹرول بھروانے کی بجائے احتیاطاً اضافی پٹرول رکھنے کا رجحان بھی پٹرول پمپوں پر دبائو بڑھانے کا باعث امر بن رہا ہے اس طرح کی ملی جلی کیفیت سے طلب اور رسد کا توازن بگڑ جائے تو اس طرح کی صورتحال پیدا ہونا فطری امر ہے ۔ماضی میں جب اس طرح کی کوئی صورتحال پیدا کی جاتی تھی تو پی ایس او کے پمپس پر وافر مقدار میں پٹرول کی سپلائی کرکے مصنوعی قلت کا مقابلہ کیا جاتا تھا مگراس مرتبہ اس طرح کا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا درآمدی پٹرول کی سپلائی کے حوالے سے افواہوں کے برعکس ملک میں پیدا ہونے والی پیداوار اور ذخیرے سے سرکاری پمپوں پر پٹرول کی فراہمی کا عمل تیز کیا جائے اور کمپنیوں کو متنبہ کیا جائے کہ ان کے پمپوں پر پٹرول کی عدم فراہمی کی صورت میں وہ ان پمپ مالکان کے خلاف کارروائی کی جائے گی ساتھ ہی ضلعی انتظامیہ پمپس پر جا کر سٹاک کا جائزہ لیکر ذخیرہ اندوزوی کے مرتکبین کو موقع پر جرمانہ کرکے پٹرول کی فروخت کھلوائیں تو صورتحال کو قابو میں لانے میں مدد ملے گی حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے یقین دہانی کے باوجود بھی اگر صورتحال بہتر نہیں ہوتی اور انتظامی اقدامات موثر ثابت نہیں ہوتے تو اس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ حکومت کی یقین دہانیاں اور اقدامات درست نہ تھیں اور ان کا مقصد صورتحال کو غیر سنجیدہ انداز میں ٹھیک کرنے کی سعی تھی بہرحال کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور سراٹھا رہا ہے جس کے باعث یہ صورتحال پیدا ہوئی جس پر طلب کے مقابلے میں رسد میں ا ضافہ اور انتظامی اقدامات کے ذریعے قابو پانے کی ضرورت ہے جب تک ذخیرہ اندوزوں کو عملی طور پر نقصان کا خوف نہ ہوگااور سخت انتظامی اقدامات نظر نہیں آئیں گی ان سے بھلائی کی توقع عبث ہوگا۔حکومت کو روس اور ایران سے سستے تیل کے حصول اور فراہمی کے ضمن میں بھی تیزی سے پیش رفت پر توجہ دینی چاہئے تاکہ اس مسئلے کے مستقل حل کی راہ ہموار ہو۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش