افغان عوام کو امداد کی ضرورت

قیادت کا امتحان شروع

خیبر پختونخوا کے ستر ہ اضلاع میں انتخابی نتائج سے غیر مطمئن ہو کر وزیر اعظم عمران خان کاآئندہ ٹکٹوں کی تقسیم کا ا ختیاراپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ قدرے تاخیرسے کیا گیا فیصلہ ہے حکمران جماعت کی شکست نہیں ہوئی بلکہ وہ دوسرے نمبر پر آئی ہے اگر ٹکٹوں کی منصفانہ تقسیم ہوتی اور کارکنوں کو ٹکٹ دیئے جاتے تو جے یو آئی کی اس قدر کامیابی ممکن نہ تھی سخت مقابلے کے بعد پی ٹی آئی پھر بھی سرفہرست رہتی لیکن اب کافی پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے جسے واپس لانا تو ممکن نہیں اس بہائو کے اثرات کو پھیلنے اور وسعت ملنے کے امکانات کا مقابلہ بھی اب آسان نہیں جن علاقوں میں اب انتخابات ہونے ہیں وہاں ان اضلاع کے مقابلے میں دیگر سیاسی جماعتیں پہلے سے مضبوط اور مقابلے کی پوزیشن میں ہیں بدلتی سیاسی فضا ان کے لئے مزید سازگار اور تحریک انصاف کے لئے مزیدناسازگار ہونا فطری امر ہو گا ساتھ ہی ساتھ کچھ سیاسی مدو جزر کا بھی تحریک انصاف کو سامنا دکھائی دیتا ہے اب سیاسی فضاء میں تھوڑی سی ارتعاش بھی مخالفین کو موافق اور تحریک انصاف کے لئے مشکلات کا باعث ہو گا۔ تحریک انصاف کی ناکامی یا دوسرے نمبر پر آنے کی مہنگائی اور ٹکٹوں کی غلط تقسیم واحد وجہ نہیں بلکہ تحریک انصاف کو ایک منظم جماعت میں ڈھالنے کے لئے تنظیم سازی تنظیموں کو مضبوط کرنے اور حالات کامقابلہ کرنے کے لئے تیار کرنے پر توجہ نہیں دی گئی کامیاب ٹھہرنے والوںکی اکثریت کو آئندہ اپنے حلقے سے امید شاید نہ تھی یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے چیلنج نے کمزوری عیاں کردی کچھ درون خانہ اختلافات بھی نتائج پر اثر انداز ہوئے ۔ وزیر اعظم جس عزم کا اظہار کر رہے ہیں وزیر اعظم کی مصروف کرسی پر فائز شخص کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں اور نہ ہی کارکنوں سے رابطہ اور کارکنوں کا ان سے رابطہ ممکن ہے قبل ازیں بھی عام کارکنوں تک قیادت کی رسائی اور قیادت کا ان کا خیال رکھے جانے کی کم ہی روایت رہی ہے بارش سے پہلے چھت کا ا نتظام کر لینا چاہئے تھا اب جبکہ بارش سے چھت ٹپکنے لگی ہے تو اس چھت کو غیر محفوظ سمجھ کر دوسری مضبوط چھت کی تلاش فطری امر ہو گا اور یہ لمحات قیادت کا اصل امتحان ہوں گے صرف بلدیاتی انتخابات ہی نہیں ضمنی ا نتخابات میں بھی حکمران جماعت کو کامیابی نہ ملنا خلاف روایت معاملہ ہے ہمارے ہاں روایت یہ رہی ہے کہ گلگت بلتستان ‘ آزاد کشمیر ضمنی اور بلدیاتی انتخابات کے نتائج حکمران جماعت کی جھولی میں گرتے ہیں اول الذکر دو میں تو اس روایت کا اعادہ ضرور ہوا مگر موخرالذکر دو میں برعکس صورتحال ہے جو خطرے کی گھنٹی ہے وزیر اعظم عمران خان اور صوبائی قیاد ت اگر اب بھی کارکنوں کو حقیقی معنوں میں اہمیت دیں اور کارکنوں کو نظرانداز کرنے والوں کو کارکنوں کے سامنے کھڑا کرکے ان سے جواب طلبی کریں وزراء اور قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین پر اعتماد کی غلطی کی بجائے کارکنوں کی رائے کو اہمیت دی جائے تو مسابقت ہو سکتی ہے باوجود اس کے جو نقصان پہنچا ہے اس کے اثرات واضح طور پر محسوس ہوں گے اور اس کے اثرات سے آئندہ کا انتخابی ماحول لازمی طور پر متاثر ہو گا۔ وزیر اعظم ہر معاملے کا سخت نوٹس لینے اور ذمہ داریوں کو تبدیل کرنے کی شہرت رکھتے ہیں مگر یہاں اس طرح کا کوئی فیصلہ دو دھاری تلوار کے مترادف ہو گا کیونکہ اس سے خلیج پاٹنے کی آسانی کی بجائے خلیج میں وسعت کا خطرہ ہے اسی طرح کے دن ہی تو سیاسی جماعتوں کا امتحان ہوتے ہیں اقتدار کا حصول اتنا مشکل نہیں جتنا اقتدار کو بروئے کار لانا اور حالات پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا ہوتا ہے حالات ایسے اڑیل گھوڑے کی مانند ہوتے ہیں جن پر سواری کوئی مشاق سوار ہی کامیابی سے کر سکتا ہے صرف ان کا مشاق ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ پوری ٹیم اور معاونین کی مہارت کے ساتھ وفاداری اور دیانتداری و خلوص بھی قابل ذکر امر ہوتاہے جملہ حالات کا اب باریک بینی سے جائزہ اور زیرک فیصلہ ہی اب تحریک انصاف کو سہارا دے سکتا ہے فیصلے میں کوئی بھی غلطی کی اب گنجائش نہیں بلکہ ماضی کے فیصلوں سمیت اپنے موقف و بیانیہ کے اثرات کو بھی اب سمیٹنے اور نظرثانی کی ضرورت ہو گی مخالفین سے مفاہمت کا باب اب بند ہوچکا ہے اب وہاں سے تندو تیز ہوائیں اور جھکڑ ہی چلیں گے جس سے سائبان کے مضبوط شہتیر بھی اب شاید ہل جائیں تحریک انصاف کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے اور حالات مختلف اور مشکل ہیں ایسے میں ایک بصیرت بین کپتان اور ان کی ٹیم ہی خطرات سے کھیل پائے گی دیکھنا یہ ہے کہ آمدہ شب و روز ملکی سیاست اور خاص طور پر تحریک انصاف کی قیادت کے لئے کیا سندیسہ لاتے ہیں اور تحریک انصاف کی قیادت ان سے کس طرح نبرد آزما ہوتی ہے اب ون مین شو کی گنجائش اور سہولت اور اس کا کرشمہ دم توڑ چکا ہے اب مضبوط چٹانوں سے ٹکرانے کا وقت آیا چاہتا ہے جس کی جس قدر تدبیر ‘ بردباری ‘ ہمت و حوصلہ اور نہایت سنجیدگی سے تیاری کی جائے اتنی ہی کامیابی کی توقع رکھنی چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے