کشمیر او آئی سی

لفظ کشمیر سے او آئی سی کا گریز اور پرہیز

افغانستان کی صورت حال پر غور کرنے کے لئے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اکتالیس برس بعد ایک بار پھر اسلام آباد میں منعقد ہوا ۔اس اجلاس میں افغانستان کی موجودہ معاشی صورت حال اور وہاں اُبھرنے والے انسانی المیے کے مختلف پہلوئوں پر بات ہوتی رہی ۔مجموعی طور پر تمام شرکاء کے گفتگو میں افغانستان کو انسانی المیے سے بچانے کی سوچ نمایاں تھی ۔ افغان عوام کو انسانی بنیادوں پر امداد پہنچانے کے لئے کئی فیصلے کئے گئے ۔پاکستان نے اس حوالے سے کئی تجاویز پیش کیں جن میں افغانستان کی امداد کے لئے او آئی سی کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کی ضرورت پر زورد یا ۔وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں افغان مسئلے کی کئی جہات پر بات کی اور دنیا کو یہ باور کرایا کہ افغانستان کو طالبان کے زاویے سے دیکھنے کی بجائے انسانی زاویے سے دیکھا جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام کی مدد مسلمانوں کا مذہبی فریضہ بھی ہے ۔افغانستان کو اس وقت طالبان سے دیکھنے کا سب سے بڑا محرک ہے جو اس احساس کا شکار ہے کہ وہ بیس سال افغانستان میں پورا زور بازو صرف کرنے کے باوجود اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکا اور آخر کار وہ اس ملک کو اسی منظر کے ساتھ چھوڑگیا جسے ختم کرنے اوربدلنے کے لئے وہ افغانستان میں آیا تھا ۔یعنی جن طالبان سے اقتدار چھینا تھا امریکہ چار وناچار واپس اقتدار انہی کے حوالے کر کے واپس چلا گیا ۔یہ وہ احساس ہے جو امریکہ کو افغانستان کی موجودہ صورت حال میں کسی مثبت کردار سے روکے ہوئے بلکہ وہ افغانستان کے اثاثے منجمد کرکے معاندانہ روش اپنائے ہوئے ہے ۔عالمی اقتصادی اداروں پر چونکہ امریکہ کا اثر روسوخ اور غلبہ مسلمہ ہے اس لئے افغانستان کے مسائل ختم ہونے کافوری امکان نہیں ۔اس ماحول میں او آئی سی کا اجلاس اس کمزور اور غیر فعال پلیٹ فارم کو دوبارہ فعال کرنے کی کوشش ہے ۔او آئی سی کے اجلاسوں انعقاد از خود ایک بڑی بات ہے کیونکہ مسلمانوں کی یہ تنظیم آخری ہچکی لے کر دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئی ہے ۔ ایک طرف اسلام آباد میں او آئی سی کا اہم اجلاس منعقد ہورہا تھا تو دوسری طرف بھارت نے چھ وسط ایشیائی ممالک کے وزرائے خارجہ کو دہلی میں بلا کر افغانوں کے دکھوں اور غموں کے لئے مگرمچھ کے آنسو بہائے گئے ۔یہ اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس کے متوازی ایک الگ سرگرمی اور خواہ مخواہ خو د متعلق اور ”اہم ” بنانے کی ایک بے مقصد کوشش تھی ۔بھارت وسط ایشیائی ملکوں کو ساتھ ملا کر حقیقت میں ایک بار پھر شمالی اتحادکو زندہ کرکے طالبان مخالف عسکریت کھڑی کرنے کی راہیں تلاش کر رہا ہے ۔وسط ایشیائی ملکوں کی افغانستان میں اصل دلچسپی اپنے اپنے نسلی دھڑوں تاجک ازبک اور ترکمان وغیرہ کی حمایت ہوتی ہے ۔بھارت انہیں طالبان کی صورت میں پشتون غلبے سے ڈراکر دوبارہ عسکریت کی مدد پر مجبور کر سکتا ہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ شمالی اتحاد کے ڈھیر ہوجانے کی ایک وجہ وسط ایشیائی ملکوں کا نیوٹرل ہو جانا بھی تھا ۔وسط ایشیا کے تین ملکوں کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں اور انہی ملکوں کی نسلی آبادیاں افغانستان کے منظر پر اپنا وجود بھی رکھتی ہیں ۔ماضی میں بھارت وسط ایشیائی ریاستوں بالخصوص تاجکستان وغیرہ کے ذریعے شمالی اتحاد کو اسلحہ اور مالی مدد پہنچاتا رہا ہے۔او آئی سی افغانستان کو کس حد تک ریلیف اور ریسکیو کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر اسلام آباد اجلاس میں کشمیر کے ذکر سے گریز اور پرہیز ایک افسوسناک ہے۔او آئی سی کا اسلام آباد میں اجلاس اکتالیس سال بعد منعقد ہورہا تھا ۔ جس میں دوردرجن وزرائے خارجہ کے سمیت ستر وفود شریک تھے ۔اسلام آباد سری نگر سے محض 167کلومیٹر کی دوری ہے ۔اس خطے میں اوآئی سی کی سرگرمی ہوئی مگر کشمیر اس سرگرمی میں کہیں دکھائی نہیں دیا ۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پہلے اس کی تاویل یہ پیش کی تھی کہ کشمیر اور فلسطین پر بات نہیں ہو گی کیونکہ کانفرنس کا ایجنڈ یک نکاتی یعنی افغانستان تک محدود ہے ۔دوسرے روز خود انہیں ہی یہ اعلان کرنا پڑا کہ کانفرنس میں افغانستان اور فلسطین پر دو قراردادیں منظور کی گئیں ۔اس طرح یک نکاتی ایجنڈے کی بات محض افسانہ ہی ہوا۔جس خطے میں یہ اجلاس ہوا اس کے ایک سلگتے ہوئے مسئلے کو بری طرح نظرانداز کیا گیا ۔کشمیر کا ذکر اگر ہوا بھی تو وہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کیا یا پھر او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ ملاقات میں انہوںنے کشمیر پر بات کی بعد میں اس بات چیت کی خبر جاری کی گئی ۔بھارت کے اخبارات نے خوش ہو کر سرخیاں جمائی کہ پاکستان نے او آئی سی کے اجلاس میں کشمیر پر بات کرنے کی کوشش کی ۔جس طرح کچھ آداب ِمیزبانی ہوتے ہیں بالکل اسی طرح کچھ مہمانی کے آداب بھی ہوتے ہیں اوآئی سی کے نمائندے بخوبی جانتے تھے کہ اس خطے میں جہاں وہ جمع ہوئے ہیں کشمیر کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کر چکا ہے اور اس مسئلے نے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔آداب مہمانی کا تقاضا تو یہ تھا کہ پاکستان کے لئے کشمیر کے لئے قدر واہمیت کا لحاظ رکھتے ہوئے ایک ہلکا پھلکا اعلامیہ اس جانب بھی اچھال دیتے مگر او آئی سی ملکوں کے بھارت سے خوف اورمرعوبیت کا عالم یہ ہے کہ وہ میزبان ملک کے اس قدر اہم مسئلے پر مہربہ لب رہے۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''