لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

جون 1972ء کی بات ہے گویا بقول شاعر نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں ‘ تب صرف میڈیا ہی ہوتا تھا ‘ توانا آوازیں سب کچا چٹھا کھول کر رکھ دیتی تھیں ‘ سوشل میڈیا کا تو تب تصور ہی نہیں تھا ‘ امریکہ جیسے ملک کے اندر ایک ہلچل مچ گئی تھی جب واشنگٹن پوسٹ جیسے بااثر اخبار سے وابستہ دو صحافیوں باب ووڈ ورڈ اور کارل بزنسٹین نے ایک ایسی کہانی رپورٹ کی جس نے تہلکہ مچا دیا ‘انہوں نے اپنی کہانی کو واٹر گیٹ سکینڈل کا نام دیا ‘ تفصیل(مختصراً) اس اجمال کی یہ ہے کہ اس وقت دوسری بار اقتدار پر براجمان امریکی صدر کے ایماء پر کچھ لوگوں نے مخالف سیاسی جماعت کے مرکزی دفتر میں نہ صرف ٹیلی فون کالیں ریکارڈ کیں بلکہ کچھ دستاویزات بھی چوری کیں ‘ جن کی مدد سے صدر نکسن نے دوبارہ انتخاب جیت لیا’ یہ خبر شائع ہونے کے بعد اگرچہ صدر نکسن نے سرتوڑ کوششیں کی کہ اس خبر کو دبادیا جائے یا اسے جھوٹ ثابت کر دیا جائے ‘ لیکن رائے عامہ کے دبائو کے نتیجے میں نیشنل ڈیموکرٹیک کمپنی نے صدر کی ایک نہ چلنے دی اور اس واردات کی انکوائری شروع کر دی ‘ مختصراً یہ کہ الزامات درست ثابت ہونے پر صدر رچرڈ نکسن کو نہ صرف مستعفی ہونا پڑا بلکہ قوم سے معافی بھی طلب کرنا پڑی ‘ گویا بقول شاعر
الجھا ہے پائوں یار کا زلف دراز میں
لوآپ اپنے دام میں صیاد آگیا
جب سے سوشل میڈیاکا دنیا میں طوطی بول رہا ہے تب سے وارداتوں کی صورتحال ہی بدل گئی ہے کیونکہ ٹیکنالوجی اب اتنی ترقی کر گئی ہے کہ لوگوں کی پرائیویٹ زندگی تک محفوظ نہیں رہی ‘ بہت عرصہ پہلے یعنی70 کی بلکہ 60ء کی دہائی سے بھی پہلے کی بات ہے ‘ ترقی یافتہ دنیا کو تو رکھیںایک طرف ‘ ہم جیسے غریب یا ترقی پذیر ممالک کے پاس بھی ایسے آلات ہوتے تھے جن سے دور کی آواز آسانی سے اور صاف صاف ریکارڈ کی جاتی تھی ‘ ہمارے ریڈیو پاکستان کے دنوں کی بات ہے جب ہم وی وی آئی پی شخصیات کی تقاریب کی ریکارڈنگ کے لئے جاتے تھے تو عمومی ریکارڈنگ سسٹم کے ساتھ ساتھ متبادل کے طور پر ایک آلہ ساتھ لے جاتے تھے جسے پیرابولا(Parabola) کہتے تھے ‘ یہ آٹھ دس انچ قطر کی ایک ڈش ہوا کرتی تھی ‘ جس میں ایک مائیکروفون فٹ کرکے روسٹرم سے دس بارہ فٹ دور رکھ دیا جاتا ‘ جبکہ عام مائیکروفون تو روسٹرم پر بھی لگے ہوتے ‘ تاہم اس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں مائیکروفون میں کوئی خرابی خدانخواستہ آجائے (ایسے تلخ تجربات اکثر ہوجاتے تھے) تو متبادل کے طور پر پیرا بولا مائیکروفون موجود ہو ‘ ریڈیو پاکستان کے پاس جو پیرا بولا تھے (اب بھی ہوں گے) ان کی رینج دس بارہ فٹ ہی ہوتی تھی ‘ البتہ بہت عرصہ پہلے ایک انگریزی فلم ہم نے دیکھی تھی جس میں ایک گاڑی کے اوپر زیادہ مضبوط قوت کا پیرابولا نصب کیا ہوا تھا اور وہ گاڑی ایک عمارت سے تقریباً پچاس ساٹھ گزیا شاید اس سے بھی زیادہ دور کھڑی کرکے عمارت کے اندر ہونے والی گفتگو ریکارڈ کی جاتی ہے ‘ اب تو سٹیلائٹ کا زمانہ ہے اور اکثر سیاسی جلسوں یا پھر دوسری تقریبات کی لائیوکوریج کے لئے مختلف چینلز کی ڈی ایس این جی لگی گاڑیاں آپ کی نظر سے گزری ہونگی جن کی مدد سے وہاں کی براہ راست کوریج گھروں میں موجود ٹی وی سکرینز پر آسانی سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اب کہیں بھی ‘ کسی بھی جگہ پرہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کرنا مشکل نہیں بلکہ بہت آسان ہو گیا ہے ‘ کہ ہر کال ریکارڈ کرسکتے ہیں۔ البتہ کمرے کے ا ندر جب تک خفیہ آلات نصب نہ کئے جائیں جیسا کہ امریکہ کے بدنام زمانہ واٹر گیٹ سکینڈل میں عمارت کے فونزکے اندر ایسے آلات لگائے گئے تھے ‘ یا کہیں اور خفیہ طور پر یہ آلات چھپا کر رکھے جائیں وہاں پر ہونے والے گفتگو ریکارڈ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ خصوصاً ایسی عمارتوں کے اندر تو یہ قطعاً ناممکن ہی لگتا ہے جن کی سکیورٹی ہائی لیول کے زمرے میں آتی ہے ‘ کہ وہاں تو قدم قدر پر احتیاطی تدابیر کا ایک ”جال” بچھا ہوتا ہے ‘اور بقول شخصے بغیر اجازت کے وہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ‘ اس کے باوجود اگر ایسی ہی کسی عمارت کے حوالے سے ”سکیورٹی بریج” کی اطلاعات آرہی ہیں بلکہ وہاں نہ صرف ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو بلکہ اہم شخصیات کے درمیان صلاح و مشورے کی ریکارڈنگ بھی کسی مبینہ ڈراک ویب کے ذریعے وائرل کرنے کی خبریں تہلکہ مچا رہی ہیں تو اس سے ہمارے اداروں کی کارکردگی پرجس طرح میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا پر شور و غل برپا ہے وہ یقیناً لمحہ فکریہ ہے ‘ کیونکہ بطور نمونہ از خروارے کی جوصورتحال سامنے آئی ہے ‘ اس نے کئی سوال اٹھا دیئے ہیں کہ بعض اطلاعات کے مطابق محولہ ڈارک ویب نے ان اطلاعات کی ”نیلامی” کے لئے جمعہ بازار لگانے کا عندیہ دیا ہے ‘ اور اگر ان میں ملکی و قومی تحفظ کے نازک ترین معاملاتکا بھی ریکارڈ ہیں تو مبینہ طور پر ہمارے دشمن ان کی زیادہ سے زیادہ بولی لگا کر ان سے ناجائز فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں ۔ ہماری تاریخ ویسے بھی ماضی میں ایسے کچھ واقعات کے حوالے سے تشویشناک صورتحال سے دوچار رہی ہیں اور جس طرح حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں ہم نے آج تک سرکاری طور پر جاری نہیں کی جبکہ وہی رپورٹ چند برس پہلے بھارت کی میڈیا نے جاری کر دی تھی ‘ یہ جوتازہ واردات سامنے آئی ہے اور وزیر اعظم ہائوس کی اندرونی سرگرمیوں کے حوالے سے مبینہ ریکارڈنگ کے چرچے عام ہیں ‘ ان میں سے کچھ کی حقیقت کیا ہے اس پر سابق وزیر دفاع کا یہ بیان مضحکہ خیز کے ساتھ ساتھ معنی خیز بھی ہے کہ حکومت تین دن میں گر جائے گی ‘ ان کے اعلان کے مطابق تو ان سطور کے شائع ہونے کے دن کے اختتام تک حکومت کو رخصت ہوجانا چاہئے ۔ تاہم یہ پیشگوئی پوری ہوتی ہے یا نہیں ‘ البتہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دے کر درست اقدام کیا ہے کیونکہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر عالمی سطح پر پاکستان کی سکیورٹی پرسوال ضرور اٹھیں گے اور غیر ملکی وفود باہمی دلچسپی کی گفتگو کرنے میں حد درجہ محتاط ہوں گے ۔بقول خمار بارہ بنکوی
خمار ان کے گھر جارہے ہیں تو جائو
مگر راستے میں زمانہ پڑے گا

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار