لیناایک نہ ‘ دینا دو

اپنے چاروں اور نظر دوڑائیں توعجیب افراتفری مچی ہوئی دکھائی دیتی ہے ‘خصوصاً سیاست کے میدان میں تو وہ ہا ہا کار دکھائی دیتی ہے اور سیاسی بیانیوں میں جھوٹ کا وہ طومار باندھا جارہا ہے کہ آج گوئبلز زندہ ہوتا تو ان ”ٹرولز” کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگاتا اور اعتراف کرتا کہ اتنا جھوٹ تو کبھی ان کے دور میں بھی نہیں بولا گیا ‘ سیاست کے بعد جب ہم عام عوام کے مسائل کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں بھی توبہ توبہ کی گردان کرنے پرغریب لوگ مجبور ہیں ‘ روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب لوگوں کا سکون چھین لیا ہے ‘ اور اس پر بھی بس نہیں کیا جارہا ہے بلکہ ”خوشخبریاں” سنائی جارہی ہیں کہ گھبرانا نہیں کیونکہ ابھی مزید مہنگائی کے طوفان امڈنے والے ہیں ‘ وہ جسے غربت کی لکیر کہا جاتا ہے اس لکیر کی حدود وسیع سے وسیع تر ہو رہی ہیں اور روزانہ خدا جانے مزید کتنے لوگ اس لکیر کے کنارے سے آگے ”تباہی اور بربادی” کے پاتال میں لوگ گر رہے ہیں اور صورتحال اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ تنخواہ دار طبقہ جسے سال میں صرف ایک بار سالانہ بجٹ کے موقع پر گنتی کے چند سکے دان کرکے سرکار ان کی آنے والی نسلوں پربھی احسان کرتی ہے مگر ان چند سکوں کی خوشی اس وقت سوہان روح بن جاتی ہے جب زندگی کے ہر شعبے پر مہنگائی اثر انداز ہونا شروع ہو جاتی ہے ‘ اور خاص طور پر روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں کمی سے جومسائل کھڑے ہوتے ہیں ‘ اس سے ان ملازمین کی آمدنی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی قوت سے محروم ہونا شروع ہوجاتی ہے ‘ رہ گئے پنشنرز تو وہ بے چارے تودس فیصد اضافے کا”طوق” گلے میں لٹکائے ہوئے ان چند روپوں کو حسرت و یاس سے تکتے رہتے ہیں اور بقول شاعر کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ
چند کلیاں نشاط کی چن کرمدتوں محویاس رہتا ہوں
تجھ سے ملنا خوشی کی بات سہی تجھ سے مل کراداس رہتا ہوں
کیونکہ ان کے اس سالانہ صرف اور صرف دس فیصد (جبکہ گزشتہ برس یعنی2019-20) اضافے کے بعد صورتحال لینا ایک نہ دینا دو والی بن چکی ہے’ یعنی دس فیصد تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے بعد مہنگائی جس طرح تواتر کے ساتھ ”دن دوگنی رات چوگنی” کی رفتار سے بڑھ رہی ہے تو اس سے ان کی پہلے سے وصول کی جانے والی آمدن کی قدر کم سے کم تر بلکہ کم ترین سطح پر جا پہنچی ہے اور اب ان کے ہاتھ آنے والی آمدن(تنخواہوں اور پنشن) میں گزشتہ برس والی طاقت بھی نہیں رہی ‘ سوال صرف اتنا اوربالکل سادہ تھا کہ پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں تقابلی جائزے میں معمولی اضافے کی ڈفلی بجاتے ہوئے ذرا یہ بھی تو بتا دیں کہ حضور ان ممالک میں فی کس آمدنی پاکستان سے کتنی (بلکہ کتنے گنا) زیادہ ہے جس کی وجہ سے ان کی قوت خرید اس قدر زیادہ ہے کہ وہاں پٹرولیم خریدنے میں عوام کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ‘ اس صورتحال پر اب بعض وی لاگرز جس قسم کے طنزیہ تبصرے کر رہے ہیں اور ”بے روزگاروں” کو روزگاردلانے کے دعوئوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں بھیک مانگنے کے مشورے دے رہے ہیں وہ اپنی جگہ مگر اس قسم کے وی لاگز کرنے والوں نے بہت مدت پہلے کی وہ لطیفہ نما خبر نہیں پڑھی ہو گی ‘ جب اسی طرح بے روزگاری سے تنگ آئے ہوئے ایک نوجوان کی نظروں سے اخبار میں ایک اشتہارگزرا کہ بغیر تنخواہ کام کرنے والے ایک نوجوان کی ضرورت ہے جس کے پاس اپنی بائسیکل بھی ہو ‘ دو وقت کا کھانا مفت دیا جائے گا’ اس نے سوچا ‘ بے روزگاری نے اس کاحشر کر رکھا ہے ‘ کیوں نہ دو وقت کے کھانے پر ہی فی الحال گزارہ کر لے بعد میں کہیں کوئی اورملازمت مل جائے تو اس ملازمت کوچھوڑ دے گا ‘ وہ مقررہ مقام پر جا پہنچا انٹرویو کے بعد اسے ملازمت پررکھنے کی خوشخبری سناتے ہوئے ملازمت فراہم کرنے والے شخص نے اسے ایک ٹفن کیریئر تھماتے ہوئے کہا ‘ تمہاری ڈیوٹی ہر روز دوپہر اور شام کے وقت داتا دربار پر جا کر وہاں لنگر خانے سے ٹفن کیریئر کے دونوں حصوں میں سالن اورساتھ ہی روٹیاں دسترخوان میں اٹھا کر لانی ہیں ‘ تاکہ دونوں یعنی ملازم اورمالک پیٹ بھر کر کھا سکیں ۔ اس کہانی کے کرداروں کے بارے میں کم از کم یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ ان کے مانگنے کا طریقہ ”باعزت” تو تھا ‘ کیونکہ داتا دربار پر ہر قسم کی دیگیں لا کر لوگ تقسیم کرتے ہیں اور کسی کوحقیر بھی نہیں گردانا جاتا ‘ مگر یہ جو بے روزگاری سے نمٹنے کے ”دعوے” بیرون ملک سے بھی لاکھوں لوگ پاکستان میں نوکریاں تلاش کرنے آئیں گے ‘ مگراب تک لوگ بے روزگاری کے عفریت سے لڑتے لڑتے تھک چکے ہیں اور ملازمتیں ”جن” کو مل رہی ہیں ان کا تذکرہ کوئی کیا کرے کہ عام آدمی کے پاس نہ تو اتنے ” وسائل” ہیں نہ ہی تگڑی سفارش کہ وہ ان”سہولتوں” سے مستفید ہوسکیں بلکہ انہیں تو ہر بار جب وہ اخبارات میں اسامیوںکے شائع ہونے کے بعد درخواست دیتے ہیں تو ان کے فون نمبر پر ایک مخصوص انداز میں پیغام آجاتا ہے کہ آپ کو”مطلوبہ سہولت”میسر نہیں ہے ۔ اس لئے اشتہار بازی والے اداروں کے ” کردار ” پر کہا جا سکتا ہے کہ
اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''