لیکس کی سیاست

ملکی سیاست کا آڈیو لیکس کے گرد گھومنا اور آڈیو لیکس کا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال میں حساسیت اور ان لیکس کے باہر لانے کا معاملہ معمہ بن گیا ہے مبینہ آڈیو لیکس چونکہ ماضی کے حکمرانوں کی گفتگو پرمبنی ہیں ایسے میں قومی سلامتی اور قومی رازوں کا افشاء ہونے عنصر خاصا تکلیف دہ معاملہ ہے اس سے قطع نظر بات ان کی مصدقہ حیثیت اور خود ساختگی کابھی ہے ان لیکس سے ملکی سیاست اور ماحول میں مزید غیر یقینی اور گو مگو کی کیفیت میں اضافہ نظر آتا ہے مشتبہ لیکس جہاں سیاسی دنیا میں جمہوری و اخلاقی اقدار پرسوالیہ نشان بنے ہیں وہاں اس سے بڑھ کر مسئلہ سیاسی خلفشار میں اضافے کا ہے عدم استحکام اور بے یقینی کی کیفیت بڑھ رہی ہے ایک جانب جہاں سیاسی گرفتاریاں اور سیاسی معاملات میں بگاڑ ہے وہاں دوسری جانب ملک کے بعض حصوں میں امن وامان کے مسائل اور شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ سے صرف نظر ممکن نہیں ہر دو معاملات حکومت کے لئے چیلنج بن رہے ہیں حکومت کے پاس سوائے طاقت کے استعمال کے کوئی اور حکمت عملی نظر نہیں آتی وطن عزیز آج کل جس صورتحال کاشکار ہے اس کاتقاضا تو یہ ہے کہ سیاسی استحکام کی سعی ہوتی اور اختلافات کو طے کرنے کے مواقع پر غور کیا جاتا ایک تسلسل کے ساتھ گزشتہ پانچ چھ ماہ سے ملک میں بے چینی کی جو کیفیت طاری اور جاری ہے اس طرف مثبت انداز فکر اور توجہ نظر نہیں آتی سیاسی کشیدگی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ایسے میں دھرنا احتجاج اور آڈیو لیکس جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف امور ہیں جس کی تیاری ہر جانب سے ہو رہی ہے آڈیو لیکس کا مواد یقینا تحقیقات کامتقاضی کام ہے مگر اسے سیاست بازی کا ذریعہ بنانے کی بجائے اس کی مناسب فورمزپر تحقیقات اور مروجہ طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے اب تک ملکی سیاست سائفر کی بھول بھلیوں سے نکلی نہیں تھی کہ آڈیو لیکس کا سلسلہ چل نکلا ہے ان حالات میں پوری طرح سے اس امر کا اندازہ بھی لگانا بھی مشکل بن گیا ہے کہ سائفر کی کہانی کی حقیقت کتنی اور کس حد تک تھی اور اب آڈیو لیکس میں حقیقت کتنی ہے اور کہانی کتنی یہ سلسلہ مزید کتنا آگے بڑھے گا او رکیا کچھ سامنے آئے گاسوشل میڈیا پر توآڈیوز کے ساتھ کچھ عجیب و غریب قسم کے ویڈیوز کی بھی آمد کا چرچا ہے اس سارے فسانے میں اخلاقیات اور قومی اقدار کا تصور ہی بے معنی ہیں ایک ایسے وقت جب سیاسی بنیادوں پر ہر فریق دوسرے کو انف ننگا کرنے کو سیاسی طریقہ سمجھنے لگا ہے اور عزت بچانا مشکل ہو گیا ہے ایسے میں متانت و سنجیدگی کا مشورہ اور اخلاقی حدود کوپھاندنے سے گریز کی اپیل نقار خانے میں طوطی کی آواز ہی ثابت ہو گی اس کے باوجود سیاسی عناصر سے ہوش کے ناخن لینے اور ایک خا ص حد سے آگے نہ جانے کی اپیل اس امید پر کرنا بے جانہ ہوگا کہ پگڑی اچھالنے کا مقابلہ چل نکلا درست اور غلط کی تمیز نہ رہی اور اخلاقی اقدار اور سیاسی اقدار کا جنازہ نکالاگیا تو اس گھٹیا عمل سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گااور بالاخر ہر دامن داغدار اور ہر شخصیت بے وقعت ٹھہرے گا اس معاملے میں حکومت سے خاص طور پر سنجیدہ اور معتدل رویئے کی توقع کی جا سکتی ہے اس سے انکار نہیں کہ خفیہ انکشافات کسی سیاسی رہنما کے سیاسی کردار میں فیصلہ کن کردار کے حامل ہوسکتے ہیں اور دنیا بھر میں اس کی مثالیں بھی موجود ہیں مگر بہرحال پراپیگنڈا اور کردار کشی اور سچ و جھوٹ میں امتیاز کا نہ ہونا اس کھیل کا حصہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ تحقیق وتفتیش اور قانونی مراحل طے کرنے کی ضرورت پوری ہونی چاہئے وطن عزیز کی سیاست میں اصل اور بنیادی اہمیت کے حامل معاملات کو ایک طرف رکھ کر بلکہ ان سے رخ موڑ کر جس قسم کے معاملات کو اولیت دی جانے لگی ہے وہ جملہ سیاسی عمائدین کی سوچ کے ساتھ ساتھ ان کے کردار و عمل کا آئینہ بھی نظر آتا ہے جسے دیکھ کر افسوس ہونے لگتا ہے سمجھداری کاتقاضا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے اور ایسے معاملات کو نہ دہرایا جائے جولاحاصل اور معیوب ہوں ۔ سیاستدان سیاست کو اس قدر گندہ کھیل نہ بنائیں کہ اس کے تمام کھلاڑیوں کو مطعون کیا جائے اور ملک میں سیاست کے معنی ہی تبدیل ہوجائیں۔

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد