3 341

لیکن وہ مرے خواب، مرے خواب، مرے خواب

سیاست کس مقام پر آکھڑی ہوئی ہے، اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے بلکہ دل اوب گیا ہے۔ شرافت کی سیاست کے امین بہت سے لوگ اب اس دنیا ہی میں نہیں رہے، ایک آدھ جو ماشاء اللہ زندہ ہیں اب ان کی باتوں پر کوئی توجہ دینے کو تیار ہی نہیں ہے۔ بہتان طرازی، دشنام اورگالم گلوچ عام وتیرہ بن چکا ہے۔ کوئی شرم کوئی حیا سیاست کے میدان میں سکہ رائج الوقت رہا ہی نہیں۔ بقول ایک فلمی شاعر آپ سے تم، تم سے تو ہونے کے بعد، کھلم کھلا گالیاں عام بات ہو چکی ہے بلکہ اب تو مخالفین کے ”اجتماعات” پر حملہ آور ہونے میں بھی کوئی عار محسوس کی جاتی ہے نہ ہی ان واقعات پر معذرت کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اُلٹا درون خانہ خوش ہونا ایسے واقعات میں ملوث ہونے والوں کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔ ممکن ہے یہ ”سیاسی شرافت” کے نئے معیار قرار دئیے جاتے ہوں مگر اس کے نتائج آگے چل کر جس خطرناک رجحان کا باعث بن سکتے ہیں اس پر سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی جارہی ہے اور اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو خدشہ ہے کہ صورتحال کسی بھی وقت خانہ جنگی کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ اب اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی دھمکیاں بھی سامنے آرہی ہیں۔ ان معروضی حالات کے تناظر میں سیاسی سٹیج پر جو منظرکشی دیکھنے کو مل رہی ہے اس میں سینیٹ کے انتخابات کے بارے میں جو بیانات سامنے آرہے ہیں وہ بھی یقیناً چشم کشا ہیں اس لئے کہ ہر صورت اپنی جیت کو یقینی بنانے کے دعوؤں کی کوکھ سے نام نہاد جمہوری اقدار کی شکست وریخت واضح ہو کر سامنے آرہی ہے۔ ایک دوسرے کے ووٹرز کو توڑنے کے جو دعوے کئے جارہے ہیں انہیں انگریزی میں ”بائی ہک آر بائی کروک” کہا جاتا ہے اور ووٹرز بھی صورتحال کی ”نزاکت” دیکھ کر اپنے ”ضمیر” کے مطابق فیصلہ کرنے جارہے ہیں، ایسے میں وہ جو کسی دور میں ایک بات بہت مشہور تھی کہ میرا تعلق جے جے یو این پارٹی سے ہے تو اب بات اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے، جے جے یو این کا مطلب تو یہی تھا ناں کہ جیڑا جیتے اس دے نال، اور اس کے پیچھے بھی وہ لطیفہ نما حقیقہ ہی تھا کہ ایک بار ایک سیاسی رہنما اپنے حلقے میں تقریر کر رہے تھے اور اپنی خدمات گنوا رہے تھے کہ مجمع میں سے کسی منچلے نے اسے ”شرمندہ” کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا جناب! آپ تو ہر دور میں پارٹی بدل لیتے ہیں، اس چکنے گھڑے نے فوراً جواب دیا جناب میں تو اپنی پارٹی نہیں بدلتا مگر میری پارٹی ہر بار اپنا نام بدلے تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ میرا تعلق تو ہمیشہ برسر اقتدار پارٹی سے ہوتا ہے اور اقتدار میںآکر اگر کوئی پارٹی کبھی ایک اور کبھی دوسرے نام سے آجائے تو میں تو اسی میں شامل رہتا ہوں، اسی سے تو یہ ترکیب جے جے یو این نکلی تھی۔ بھلے سے اس پارٹی سے تعلق رکھنے والوں کو سیاسی لوٹے قرار دیا جاتا ہو، مگر ”اصولی طور پر” تو ان کے مؤقف کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم اب اس صورتحال میں ایک اور جوہری تبدیلی آچکی ہے اور اب اگرچہ جے جے یو این کے الفاظ سے تبدیل نہیں ہوئے مگر نام پھر بھی بدل گیا ہے یعنی اب الفاظ سے جیڑا جیتے اس دے نال کی بجائے اسے جیڑا جتاوے اس دے نال کا نام مقصود ہوتا ہے یعنی جو کامیاب کرائے اسی کا ٹکٹ طلب کرنے کی آرزو لے کر لوگ کشکول بدست گھوم رہے ہیں اور سیاسی ”مارکیٹ” میں یہی سکہ کھنک رہا ہے مگر ساتھ ہی ”سٹک اینڈ کیرٹ” کا فارمولہ بھی چل رہا ہے بلکہ اس کی ”دھمک” ایک بار پھر گونج بن کر سیاسی سٹیج پر ”دھمال” ڈالنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے اور بقول شاعر
ہونا ہے وہی جو کہ مقدر میں لکھا ہے
لیکن وہ مرے خواب، مرے خواب، مرے خواب
یہاں تو مگر خواب نگری پر بھی ”قبضہ مافیا” کا زور چلتا ہے اور وہ ”مقدر” کو اپنے تابع مہمل کرنے کا ہنر جانتا ہے، اس لئے یہ جو سوشل میڈیا کے مختلف ایپس پر ہونے والے تبصرے، گھڑی گھڑائی خبریں اور شور وغوغا سے سیاسی فضا کو آلودہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ان سے کوئی حتمی نتیجہ تو برآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا، کہ وہاں میں ترے سنگ کیسے چلوں سجنا کی بجائے اپنی اپنی ڈفلی بجانے والے اپنے اپنے پسندیدہ حلقوں کے حوالے سے یہی ”نغمہ” الاپتے نظر آرہے ہیں کہ میں ترے سنگ ہی تو چلوں سجنا مگر اصل نغمے کے تخلیق کاروں نے کیا سوچ رکھا ہے اس کا اندازہ لگانا اس قدر آسان نہیں ہے کیونکہ پانی کے بیچ ہکچولے کھاتی کشتی کے کبھی ایک سمت اور کبھی دوسرے سمت جھک جانے سے اندازہ لگایا ہی نہیں جا سکتا کہ بالآخر یہ سیاسی ہکچولے تھمیں گے تو کشتی کا کیا بنے گا، یعنی اس کا رخ بالآخر کس جانب ہوگا کیونکہ پتوار کسی اور کے ہاتھ میں ہوں تو ساحل اور طوفان کے بیچ سفر کرنے والوں کو اندازہ ہی نہیں ہوسکتا کہ ان کا کیا بنے گا؟ تاہم ساحل پر کھڑے ہجوم کو پھر بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ملاح کا مقصد کیا ہے؟ اس وقت تو صورتحال افتخار عارف کے اس شعر سے واضح ہو رہی ہے کہ
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟