3 180

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

ہمارے حکمران، سیاستدان، ارباب اقتدار یا ارباب اختیار آپ انہیں جو دل چاہے نام دیدیں لیکن ان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے جب بھی بات کی جائے گی وہ یہی ہوگی کہ ان کا کام عوام کا خیال رکھنا ہے ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنا ہے، انہیں سکھ دینا ہے دکھوں سے نجات دلانا ہے ان کی فلاح وبہبود اور بہتری کے حوالے سے سوچنا ہے ان کے مسائل کا خاتمہ کرنا ہے ہر معاملے میں انصاف کرنا ہے مال کی محبت سے اپنا دامن بچا کر رکھنا ہے ان کی پہلی ترجیح عوامی مفادات کا تحفظ ہی ہونا چاہئے اختیارات اور مقام جتنا بلند ہوتا ہے ذمہ داریاں بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہیں، بقول میرتقی میر:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا
سچ ہے کہ ارباب اقتدار کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہئے، ارباب اختیار کے شب و روز، معمولات زندگی، انداز حکمرانی اور سیاسی جوڑ توڑ دیکھتے ہوئے جو صورتحال سامنے آتی ہے وہ انتہائی مایوس کن اور پریشان کن ہے۔ آپس کے اختلافات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے انتخابات کے بعد حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کیساتھ تعاون کرنا چاہئے اپوزیشن کی طرف سے مثبت تنقید بھی ہوتی رہے اور ترقیاتی کاموں میں ایک دوسرے کی مدد بھی کی جائے تو فائدہ عوام ہی کا ہوتا ہے جب بدیانتی بڑھ جاتی ہے لالچ اور لوٹ کھسوٹ کا دوردورہ ہوتا ہے تو پھر حرص وہوس بڑھتی ہی چلی جاتی ہے، عوام کا پرسان حال کوئی بھی نہیں ہے حکومت کی طرف سے کسی بھی قسم کا تعاون دیکھنے میں نہیں آرہا، لوگوں کی جان ومال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن یہ احساس کہیں نظر نہیں آرہا؟ انتخابات کے دوران جو وعدے کئے جاتے ہیں ان کی مثال چار دن کی چاندنی والی ہوتی ہے اور پھر عام آدمی کیلئے اندھیری رات کا دورانیہ طویل سے طویل تر ہوتا چلاجاتا ہے۔ عوام تو صرف قربانی دینے کیلئے ہیں جب حکومتیں اپنے بے جا اخراجات، اسراف، لوٹ کھسوٹ اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے معاشی دباؤ کا شکار ہوجاتی ہیں تو قربانی دینے کیلئے عوام تو ہر وقت موجود ہوتے ہیں ان پر بے تحاشہ ٹیکس لگا دئیے جاتے ہیں بجلی کے نرخ بڑھا دئیے جاتے ہیں سوئی گیس مہنگی کردی جاتی ہے! درج بالا منظرنامہ پڑھ کر ارباب اختیار کے سوچنے کے انداز ان کے اقدامات اور ترجیحات سمجھ میں آجاتی ہیں۔ سوچنے کا یہ انداز بھی ملاحظہ فرمائیے، ایک مرتبہ قاضی حمیدالدین ملک التجار نے ہندوستان کے بادشاہ علاؤالدین خلجی کو پلنگ پر پریشان حال بیٹھے ہوئے دیکھا، سر برہنہ، پاؤں زمین پر، فکر میں غرق۔ بادشاہ سے کچھ عرض کرنے کی اجازت مانگی بادشاہ نے اجازت دیدی تو قاضی نے کہا میں آپ کو انتہائی پریشان دیکھ رہا ہوں، حضو ر کی پریشانی ہم سے نہیں دیکھی جاتی، آپ کو کس بات کی فکر ہے؟ بادشاہ نے کہا سنو! مجھ کو چند روز سے یہ فکر ہے کہ میں دل میں سوچتا ہوں کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر حاکم کیا ہے اب کچھ ایسا کام کرنا چاہئے کہ مجھ سے تمام مخلوق کو فائدہ پہنچے۔ دل میں سوچا کیا کروں اگر اپنا تمام خزانہ تقسیم کردوں تو تب بھی خلق کو نفع نہ ہوگا۔ اب ایک بات سوچی ہے وہ تم سے کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تدبیر ارزانی غلہ کی کروںکہ اس سے مخلوق کو فائدہ پہنچے گا اور ارزانی غلہ کی یہ تدبیر کی ہے کہ بنجاروں کے نائکوں کو حکم دوں کہ حاضر ہوں وہ جو غلہ اطراف سے ہزاروں بیلوں پر لاتے ہیں ان کو خلعت دیکر اپنے خزانے سے اس کی قیمت ادا کردوں اور ان کے گھریلو اخراجات علیحدٰہ ادا کردوں کہ وہ اپنے گھریلو اخراجات سے بے فکر ہو جائیں اور وہ میرے مقررہ کردہ نرخ کے مطابق چیزوں کی خرید وفروخت کریں۔ صلاح مشورے کے بعد نائکوں کو فرمان جاری ہوئے۔ خلعت اور خرچ اور قیمت خزانہ شاہی سے ملا اور ہر طرح کا غلہ اطراف سے بکثرت آنے لگا، چند روز کے بعد فی من گندم کے نرخ کم سے کم تر ہوتے چلے گئے۔ گھی شکر سب چیزیں ارزاں ہوگئیں، خلق آسودہ ہوئی اور سب نے نفع پایا۔ ہمارے حکمرانوں کے شاہی خزانے تو غیرملکی بینکوں میں پڑے پڑے زنگ آلود ہوچکے ہیں ان سے ان کے مالکوں کو فائدہ نہیں پہنچتا تو غریب عوام کو کیا فائدہ پہنچے گا۔ عوام بیچارے ان خزانوں کو کیا کرتے ہیں، دراصل عوام کو غرض ہی اشیائے ضرورت سے ہوتی ہے، انہوں نے گاڑیاں نہیں خریدنی ہوتیں یہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ گھی، چینی، دالیں، مرچ مسالے، آٹا، چائے، دودھ، گوشت اور اسی طرح روزمرہ ضرورت کی چیزیں سستی ہوجائیں مہنگائی کے عفریت سے ان کی جان چھوٹے۔ سرکاری سکولوں کا معیار بہتر سے بہتر ہو عام آدمی کیلئے اپنے بچے کو نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم دلانا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن پر حکمرانوں کو سوچنا چاہئے۔ اگر ارباب اقتدار عوام کو بھول جائیں تو پھر اللہ ان حکمرانوں کو بھول جاتا ہے جس کا نتیجہ سب کو معلوم ہے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا