مؤثر اقتصادی سفارتکاری ناگزیر

جغرافیائی سیاست کے جغرافیائی اقتصادیات میں تبدیل ہونے کے بارے میں بحث و مباحثہ جاری ہے جو عالمی اور علاقائی جہتوں کی وجہ سے پالیسی سازوں کی بدلتی ترجیحات کا مظہر ہے۔ ترقی پذیر ممالک جغرافیائی سیاست اور جیوسٹریٹیجک مجبوریوں کی پہلے ہی بھاری قیمت چکا چکے ہیں۔ عوامی فلاح و بہبود کے لیے ان کے پاس دستیاب اقتصادی مواقع کا استحصال کئے جانے کا اعتراف بھی ہو رہا ہے۔ علاوہ ازیں انسانیت کی سلامتی کی اہمیت کا احساس بڑھتا جا رہا ہے جو قومی سلامتی کا ایک لازمی جزو ہے اور اس کا بڑی حد تک انحصار اقتصادی سلامتی پر ہے۔ چنانچہ اقتصادی سفارت کاری کی افادیت مسلسل بڑھ رہی ہے اور یہ جغرافیائی اقتصادیات کے بارے میں غور و خوص کا لازمی حصہ بن چکی ہے۔سفارتکاری کا عمل باہمی مفاد پر مبنی اہداف کے حصول کیلئے بین الریاستی اور بین الادارہ جاتی امور میں بامقصد رابطوں پر زور دیتا ہے چنانچہ پاکستان کے پاس دستیاب مواقع بروئے کار لاتے ہوئے بھرپور اقتصادی سفارت کاری کے ذریعے اقتصادی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ منفرد جغرافیے اور آب و ہوا کے ساتھ پاکستان کامحل وقوع ان تمام قسم کی زرعی سرگرمیوں کے لیے انتہائی موزوں ہے جو اس کی بائیس کروڑ سے زائد آبادی کے لئے غذائی تحفظ یقینی بنانے کے حوالے سے ضروری ہیں۔ اسی طرح پاکستان کا سٹریٹجک اہمیت کا حامل جغرافیائی محل وقوع اور زرخیز زمین کا وسیع و عریض رقبہ وسط ایشیائی ریاستوں، روس اور افغانستان کودنیا کے دوسرے ملکوں کے ساتھ تجارت کے بے پناہ مواقع فراہم کرتا ہے۔ شاید چین نے پاکستان کی اسی اہمیت کا ادراک کیا اور باہمی مفاد میں چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کا آغاز کیا جو اس کے ایک خطہ ،ایک سڑک کے اہم منصوبے کا حصہ ہے۔ اسی طرح پاکستان میں قدرتی وسائل سے استفادہ کرنے سمیت متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کے بھی بے پناہ مواقع موجود ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سفارتی حکام یہ مواقع موثر انداز میں اجاگریں تاکہ سرمایہ کاروں کو راغب کیا جا سکے۔ مزید برآں ٹیتھیان کاپر کمپنی کے خلاف ریکوڈک کیس سے متعلقہ قانونی مسائل کو بھی حل کرنا اہم ہے تاکہ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان آنے سے گریزاں نہ ہوں۔ پاکستان کی موسمیاتی معیشت سے فوائد حاصل کرنے کی کامیاب کوششیں معیشت کے دیگر شعبوں میں اقتصادی سفارت کاری کے حوالے سے قابل تقلید ثابت ہو سکتی ہیں۔ سعودی عرب کو اپنی سرزمین سرسبز بنانے کی کوششوں میں تکنیکی معاونت اور افرادی قوت کی فراہمی پاکستان کیلئے ترسیلات زرمیں اضافے سمیت بے پناہ اقتصادی فوائد کا باعث بن سکتی ہے ۔ بدقسمتی سے بین الاقوامی ادارے پاکستان کے لئے کوئی زیادہ مہربان نہیں ہیں اور وہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورسکی طرف سے پیش کردہ شرائط پوری کرنے کے باوجود گرے لسٹ میں ہے تاہم اس طرح کی قانونی رکاوٹیں دور کرنے کیلئے کوششیں تو کی جا سکتی ہیں، دوبارہ ” وائٹ اسٹیٹس” حاصل کرنے کیلئے اقتصادی منتظمین اور سفارتی حکام کو ملکرکر کام کرنا ہوگا جو معاشی سلامتی یقینی بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔ پاکستان نے گندم، چاول، کپاس اور گنے جیسی ضروری زرعی پیداوار کے حوالے سے اپنی کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لیے سخت جدوجہد کی ہے۔ اب یہ ہمارے سفارتی منتظمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے لیے غیر روایتی منڈیاں تلاش کریں تاکہ ہماری برآمدات میں بہتری آئے اور ادائیگیوں میں عدم توازن جیسے مسائل حل ہوں۔ اسی طرح پاکستان ڈیری مصنوعات کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے، پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن کے مطابق اس شعبے میں ملک کی برآمدی صلاحیت 28 سے 30 ارب ڈالر کے درمیان ہے لیکن 2020ء میں برآمد کا حجم صرف 68 کروڑ ڈالر رہا۔ وبائی صورتحال سے نمٹنے میں کامیابی نے بھی اقتصادی منتظمین کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ سفارت کاروں کو طبی آلات کی تیاری میں پیشرفت اور طبی ماہرین کی مہارت سے آگاہ کریں تاکہ وہ انہیں دنیاکے سامنے پیش کریں۔ موجودہ حکومت کو خود کفالت کے حصول اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی برآمد کے لیے اپنی مہم کے ایک حصے کے طور پر آم، زیتون اور شہد کی ڈپلومیسی کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ موبائل فون انڈسٹری اور آٹوموبائل انڈسٹری کیلئے ”میک ان پاکستان” کے تحت اپنائے گئے ترغیبی ماڈلز کو دیگر شعبوں جیسے ہائیڈرو کاربن کی تلاش، معدنی ترقی اور دیگر بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سیاحت کے شعبے میں موثر اقتصادی سفارت کاری کے ذریعے غیر ملکی زائرین اور سرمایہ کاری کو راغب کیاجا سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس مذہبی سیاحت سے لے کر پہاڑی سیاحت تک اور تاریخی سیاحت سے لے کر قدرتی سیاحت تک بے شمار مواقع موجودہیں۔ پاکستان میں کم از کم تین مذاہب ہندو ازم ، بدھ مت اور سکھ ازم کے تاریخی مقامات اورعبادت گاہیں موجود ہیں جنہیں اگر مناسب طریقے سے محفوظ کیا جائے تو نہ صرف ہر سال دنیا بھر سے عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد کو راغب کیا جاسکتا ہے بلکہ ہمارے سفارتکاروں کو ملک کا بہتر تشخص اجاگر کرنے میں بھی مدد ملے گی ۔ تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی اور علاقائی صورتحال میں معاشی سلامتی انسانی سلامتی کی کلید بن چکی ہے اور انسانی سلامتی کے بغیر قومی سلامتی کو یقینی بنانا مشکل ہے۔ اس لئے اقتصادی سلامتی کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایک موثر اقتصادی سفارت کاری کی حکمت عملی وضع کی جائے جس پر بیرون ملک تمام سفارتی مشنزبھرپورانداز میں عمل پیرا ہوں۔ (بشکریہ، بلوچستان ٹائمز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟